• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اس مایہ ناز کتاب کا عنوان ہے جو میرے اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے اصرار پر سید مشکور حسین یادؔ نے اُردو ڈائجسٹ کے لیے خونِ جگر سے سلسلہ وار تحریر کی تھی۔ بلامبالغہ یہ 1947ء کے فسادات پر بہترین کتاب ہے جس میں ہندو ذہنیت پوری طرح سے بے نقاب ہوئی ہے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے خاندان کے دو درجن سے زائد افراد شہید کیے گئے جن میں اُن کی جواں سال بیوی اور دو سال کی بچی بھی شامل تھی۔ بلوائی تو اُنہیں بھی اپنی طرف سے موت کے گھاٹ اُتار گئے تھے اور وہ لاشوں کے اندر بڑی دیر دبے رہے۔ خاندان کے بڑوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کو خود مارنے کی کوشش کی تھی کہ وہ بھیڑیوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں، مگر اُن کے ہاتھ کپکپاتے رہے اور اُن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا رہا۔ حملہ آوروں کو اس بات پر غصہ تھا کہ پاکستان بننے سے بھارت ماتا کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں اور ان کا اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان ہولناک واقعات کو قلم کی گرفت میں لاتے ہوئے جناب مشکور حسین یادؔ پر کیا گزری ہو گی اور اُن کی آنکھوں سے خون کے کتنے دریا بہہ نکلے ہوں گے۔ اُنہوں نے کربِ عظیم پر قابو پا کر آزادی کے چراغ روشن رکھنے کی بڑی مجاہدانہ کوشش کی تھی۔
تقسیم ہند سے پہلے ان کا بچپن اور لڑکپن سرسہ میں گزرا تھا جہاں ہمارا خاندان آباد تھا۔ ہم سبزی منڈی میں رہتے تھے جس کی زیادہ تر آبادی غریب لوگوں پر مشتمل تھی۔ پوری بستی میں اسکول جانے والے صرف پانچ سات بچے تھے۔ ان میں میرے تین بھائیوں کے علاوہ محمد یقین، مشکور حسین اور اُن کے چھوٹے بھائی شامل تھے۔ مشکور صاحب کے والد پولیس میں تھے۔ میرے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن مشکور صاحب کے ہم عمر اور ایک طرح سے ہم جماعت بھی تھے۔ ان دونوں نے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات جالندھر سنٹر سے دیئے اور کامیاب رہے تھے۔ مشکور صاحب کا شعر و سخن کے ساتھ بچپن سے لگاؤ تھا جسے جناب حیدر دہلوی کی تربیت نے دوآتشہ کر دیا تھا۔ وہ یادؔ تخلص کے ساتھ بہت اچھا شعر کہتے اور قدیم شعرا کے کلام سے شعری ذوق کشید کرتے تھے۔ اُن کے والد اور اُن کی والدہ ہمارے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے جس میں بڑی اپنائیت ہوتی۔ غالباً 1944ء میں اُن کے والد کا تبادلہ حصار ہو گیا جو ہماری تحصیل سرسہ کا ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ یہاں انوارالحق ڈپٹی کمشنر تھے اور اُن کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد کے والدِ محترم جناب مختار احمد ریڈر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ 1946ء کے بعد پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے آثار نمایاں تھے۔ ایسے میں مسلم اقلیت کے علاقوں میں کسی مسلمان کا ڈپٹی کمشنر لگ جانا یا پولیس کا اعلیٰ عہدے دار ہونا بہت بڑی بات تھی۔ انہی دنوں ضلع حصار کے اعلیٰ حکام کو ایک سرکاری جریدہ نکالنے کا خیال آیا جس کے ایڈیٹر مشکور حسین یادؔ اپنی قابلیت کی بنیاد پر مقرر ہوئے۔ اُن کے والد نے ریلوے اسٹیشن کے سامنے نئی آبادی میں مکان تعمیر کر لیا تھا۔ جب فسادات پھوٹ پڑے، تو حفاظت کیلئے اُن کا پورا خاندان اس گھر کے اندر منتقل ہو گیا تھا جہاں اسے بے دردی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ صرف مشکور حسین یادؔ اور اُن کے والد موت کی وادی میں جانے سے محفوظ رہے کہ وہ اس وقت پولیس لائن میں تھے۔
یہ دونوں باپ بیٹے ہجرت کر کے ساہیوال آئے۔ مشکور صاحب نے گریجویشن کی اور محکمۂ انہار میں ضلعدار بھرتی ہو گئے۔ اس محکمے میں ضلع داری ایک مال دار یونٹ ہے، مگر مشکور صاحب نے دیانت داری اور فرض شناسی کا ایک ایسا معیار قائم کیا جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ پورے محکمے میں اُن کا نام احترام سے لیا جاتا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے اپنے خون سے آزادی کے جو چراغ روشن کیے ہیں، ہمیں اپنی محنت، لگن اور حُسنِ عمل سے اُنہیں فروزاں رکھنا ہے۔ ملازمت ہی کے دوران انہوں نے اُردو میں ایم اے کیا اور گورنمنٹ کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ اُنہوں نے طلبہ میں وطن سے محبت کے اعلیٰ جذبات کی پرورش کی اور کامل ذمہ داری سے نوجوانوں کو اعلیٰ قدروں سے روشناس کرایا۔ وہ اس بات پر فخر کرتے کہ نوازشریف بھی اُن کے شاگرد رہے ہیں جن میں نجابت اور حب الوطنی پائی جاتی ہے۔ ایک زمانے میں وہ ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ کے دفتر کے سامنے رہتے تھے اور کالج جانے سے پہلے ہماری طرف نکل آتے۔ ایک صبح ایسا ہوا کہ وزیرِ خارجہ مسٹر بھٹو ایوانِ صدر راولپنڈی سے مجھ سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے اور یہ بتا رہے تھے کہ اُردو ڈائجسٹ میں اُن کے شائع کردہ انٹرویو پر وہ کابینہ سے فارغ کر دیئے گئے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے یا ایوب خاں کے سامنے ڈھیر ہو گئے تھے۔ اُن کا جواب تھا کہ میں اپنے موقف پر قائم رہا کہ ہم بھارت کی بالادستی قبول نہیں کریں گے اور اگر ہمیں اپنے عقائد اور اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت کے لیے میدانِ جنگ میں بھی اُترنا پڑا تو اس سے گریز نہیں کریں گے۔ تب میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ آپ ہی آئندہ ہماری قوم کے لیڈر ہوں گے۔ میں یہ الفاظ ادا کر ہی رہا تھا کہ مشکور صاحب میرے کمرے میں آئے اور پوچھنے لگے کسے آئندہ کا لیڈر بنا رہے ہو۔ میں نے پوری بات سنائی تو انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا۔
مشکور صاحب کی شخصیت کا سب سے بڑا اعجاز اور بلند مقام یہ تھا کہ انہوں نے اپنا غم چھپانے کے لیے طنزومزاح کی صنف اپنائی۔ وہ غمزدہ رہنے کے بجائے دوسروں کو بھی ہنساتے اور خود بھی کھلکھلا کر ہنستے تھے۔ اُن کے انشایے لطافت اور ندرتِ خیال کے شاہکار تھے۔ اُن کے اندر بے پایاں معنویت کے علاوہ اُمید کی خوشبو بھی رچی بسی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ زندگی میں سنہری موقع کبھی کبھی آتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ زندگی کے ہر لمحے کو سنہری موقع میں ڈھال سکتے ہیں۔ اُنہوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پر نئے انداز سے تحقیق کی اور وہ اس راز کا سراغ لگانے میں کامیاب رہے کہ انسانی زندگی کا کوئی موضوع اور کوئی پہلو ایسا نہیں جس کا اقبالؔ کی شاعری میں احاطہ نہ کیا گیا ہو۔ وہ ہمارے عہد کے بہت مایہ ناز شاعر، انشا پرداز اور بلا کے نقاد تھے اور اُنہیں نام نہاد اہلِ علم و ادب کے تصنع اور منافقت پر بہت غصہ آتا اور وہ بلاجھجک خرابیوں کی نشان دہی کرتے رہتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کی بہت عمدہ تربیت کی جو اپنے اپنے شعبوں میں مثالی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشکور حسین یادؔ پر رحمتوں کی بارش فرمائے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔اُن کا ایک شعر اکثر یاد آتا ہے ؎
وہ میرے پاس بیٹھا مجھے دیکھتا رہا
اس بار اس سے پھر مری تصویر کھو گئی

تازہ ترین