• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ۔ رنگ بھی چوکھا آئے...طلوع …ارشاد احمد عارف

میاں شہباز شریف کا جذبہ قابل داد، اخلاص میں شک کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں اور ان کی دردمندی کا ایک زمانہ معترف ہے لیکن اپنے اثاثے بیچ کر قوم کی خدمت کرنے کاعزم؟ یہ نہ تو کسی مسئلہ کاحل ہے ، نہ قوم کی خواہش اور نہ حقیقت پسندانہ طرز ِعمل، میاں شہباز شریف اپنا سلوکا، کاٹن کی پتلون اور گھڑی مزید دس سال پہنے رکھیں بلکہ سلوکے کے نیچے بلٹ پروف جیکٹ بھی، کسی کو اس پر اعتراض نہیں۔ حکمرانوں سے قوم کا یہ ہرگز مطالبہ نہیں اور توقعات کچھ اور ہیں۔
1970کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی قیادت نے قوم کو یہ جھانسہ دیا کہ وہ اقتدار میں آکر ہر مزارع کو زمین، صنعتی کارکن کو کارخانے اور مزدور کو کاروباری ادارے کا مالک بنا دے گی ، ہر شخص گاڑی، بنگلے کا مالک ہوگا اور بڑے بڑے جاگیردار، تمند دار، صنعتکار، جرنیل اور بیوروکریٹس ہاریوں،مزدوروں اور کارکنوں کی مٹھی چاپی کیا کریں گے لیکن ایک محدود خوش فہم حلقے کے سوا کسی نے یقین نہ کیا کہ ان کی نہ تو یہ خواہش تھی او ر نہ وہ اسے ممکن سمجھتے تھے۔ جو احمق اس خوش فہمی کا شکار ہوئے انہیں قائد عوام کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جتلا دیا کہ
”خواب تھا جو کچھ کہ ایک بار جو سنا افسانہ تھا“
1970 میں صورتحال یہ تھی تو 2011 میں کون اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگا کہ میاں شہباز شریف اپنے کارخانے، مکانات، کاروبار ار اثاثے بیچ کر 18کروڑ عوام یا پنجاب کی آٹھ کروڑ آبادی کو مالا مال کرسکتے ہیں۔ ہاں البتہ عوام کی یہ خواہش ضرور ہے کہ حکمران مرکز میں ہوں یا صوبے میں قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔ امیر اور غریب میں فرق ختم نہیں ہوسکتا تو اسے مزید نہ بڑھائیں جس قدر ممکن ہو کم کریں، رعایا کو سماجی، اقتصادی ، معاشی اور قانونی انصاف فراہم کریں، 95 فیصد عوام کو شودربنانے والے ظالمانہ طبقاتی نظام کی بیخ کنی کریں، وہ روزگار کے مساوی مواقع چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے تعلیم اور خاندان کے لئے صحت ، تعلیم کی سہولتیں، انہیں حکمرانوں کی سہولتوں بلکہ پرتعیش زندگی پر بھی اعتراض نہیں اگر انہیں یقین ہو کہ حکمرانوں نے یہ سہولتیں عام آدمی کو غربت و افلاس، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، لاقانونیت اور دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا کرکے حاصل نہیں کیں۔
پاکستانی عوام کو حکمرانوں، ان کے عزیز و اقارب، ذاتی و خاندانی وفاداروں اور سیاسی چہیتوں کی لوٹ مار پر اعتراض ہے۔ وہ کرپشن اور نااہلی کے ملاپ سے جنم لینے والی سنگین صورتحال سے پریشان ہیں، انہیں نااہل حکمرانوں کی طرف سے روزانہ ملنے والا یہ بھاشن خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیتاہے کہ اگرہم نہ رہے تو خدانخواستہ ملک نہیں رہے گا اور اگر امریکہ مدد نہ کرے تو ہم ایک دن زندہ سلامت نہیں رہ سکتے۔ اس وقت ان کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے مگر حکمران طبقہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہے۔ کہیں وزارتوں پر لڑائی ہے تو کہیں مراعات پر اور کہیں اس بات پر فساد برپا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور ایک گورنر ایک وزیر کے قتل کا ذمہ دار مرکز ہے یا صوبہ…
پیپلزپارٹی کو حکومت سے فارغ کرکے میاں شہباز شریف نے اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال لیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے منحرف ارکان کو ساتھ ملا کر انہوں نے اپنے اور اپنے برادر بزر گ کے بہت سے مداحوں کو مایوس کیا۔ اب لوگ بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک خادم پنجاب سے وعدوں کی تکمیل اورتین سالہ کارکردگی کے نتائج چاہتے ہیں۔ وہ پنجاب کو نظم و نسق اور ترقی و خوشحالی کے حوالے سے مثالی صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔ وہ اعلیٰ کارکردگی اور اصولوں کی پاسداری چاہتے ہیں اور صوبے میں مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی اور غربت و افلاس کا مکمل خاتمہ نہ سہی معتدبہ کمی کے خواہش مند ہیں۔ وہ حکمرانوں سے جائیدادیں اور اثاثے بیچنے کا مطالبہ نہیں کرتے البتہ ان کی جائیدادوں، اثاثوں اور بنک بیلنس میں اضافے کے علاوہ شہ خرچیوں اور خرمستیوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اگر میاں صاحب بقائے دوام اور قبولیت خاص و عام چاہتے ہیں تو ایک سہل اور سادہ کام کریں جس پر ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
مسلم لیگ (ق) کے رکن سابق وزیر رضا حیات ہراج نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں ایسے تمام لوگوں کو عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دینے اور انتخابی عمل سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی ہے جن کے بیرون ملک کاروبار، اثاثے یا بنک اکاؤنٹس ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ نہ دیکھو کہنے والا کو ن ہے کیا نام ہے؟ صرف یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ رضا حیات ہراج کی تجویز معقول ہے۔ بیرون ملک کاروبار، اثاثے اور بنک اکاؤنٹس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس شخص یا خاندان کو اس ملک کے مستقبل اور اداروں پر اعتماد نہیں۔ معاشی بدحالی کے شکار اس ملک کے سیاستدانوں کے بارے میں یہ بات منظرعام پر آتی ہے کہ ان کے کاروبار، اثاثے اور بنک اکاؤنٹس بیرو ن ملک ہیں تو اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ وہ بجا طور پر یہ سوچتے ہیں کہ جب ملک کے اقتدار اور وسائل سے مستفید ہونے والے لوگوں کو یہاں سرمایہ لگانے، اثاثے بنانے اور بنکوں میں سرمایہ رکھنے کی توفیق نہیں تو وہ یہ رسک کیوں لیں؟
چھوٹے میاں صاحب صرف اتنا کریں کہ برادر بزرگ سے کہہ کہلوا کر اپنے تمام ارکان سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو اس امر پر مجبور کریں کہ وہ اس بل کی حمایت کریں اور بیرون ملک اپنا کاروبار، اثاثے اور سرمایہ وطن واپس لائیں یا پھر سیاست چھوڑ کر کوئی اور دھندہ کریں۔ وہ یہ کام کر گزریں تو انہیں اپنا سچا مسیحا، حقیقی خادم اور انقلابی رہنما جان کر پاکستانی قوم قیامت تک یاد رکھے گی۔ نعرے بازی میں پیپلزپارٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ قوم کا پیٹ بلند بانگ دعوؤں، انقلابی نعروں اور ناقابل عمل وعدوں سے نہیں بھرتا ورنہ وہ کب کی بھر چکی ہوتی۔………
تازہ ترین