• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کوئی عدالتی فیصلہ عوام سے تعلق نہیں توڑ سکتا ، نہ جیل سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی موت سے، 70سال سے کسی راہزن سے سوال تک نہیں کیا گیا اور نہ کٹہرے میں لایا گیا ، مجھے بلاوجہ سزا دی گئی۔ جو لوگ مائنس نواز چاہتے ہیں ، انہیں پتہ نہیں نواز شریف ایک نظریئے کا نام ہے، یہ نظریہ پاکستان میں انقلابی تبدیلی لے کر آئے گا‘‘ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی سے جب یہ بل پاس ہوا کہ کوئی نااہل شخص پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے تو اسکے فوراً بعد نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم کے آغاز پر ایبٹ آباد میںیہ جو الفاظ کہے،اسکے بعد انکے اپنے ضمیر کے درمیان ایک مکالمہ شروع ہوگیا ہے۔ آیئے ہم بھی اس مکالمہ کو سنیں ۔
ضمیر:دیکھو میں تمہارے پیدا ہونے سے لیکر اب تک تمہارے ساتھ ہوں ، گو تم نے مجھے مارنے کی بھی بڑی کوششیں کیں مگر اب تک میں نہ صرف بچتا آ رہا ہوں بلکہ تمہیں بھی بچا رہا ہوں۔ میں نے کئی مرتبہ تمہیں تنبیہ کی مگر تم ہو کہ اپنی ڈگر پر چلنے کو طاقت سمجھتے ہوں ، لیکن اب تو تم نے انتہا ہی کر دی ہے اس لئے آخری وارننگ کے طور پر تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہاہوں ، اسکے بعد میری موت واقع ہو جائیگی ۔ تم جیسے مرضی کرنا۔
نظریہ:میں نے کونسی ایسی انوکھی بات کر دی جو تم اتنے تلما رہے ہوں ،میں نے کارل مارکس کی طر ح یہ کہا ہے کہ ’’نواز شریف ایک نظریہ ہے‘‘
ضمیر:خدا تعالیٰ سے معافی مانگو تم اپنے آپکو نظریہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں، جہاں تک کارل مارکس کا تعلق ہے اُس نے ایک نظریہ تاریخ کے سپرد کیا تھا، دنیا میں کئی نظام اس سے منسوب کئے گئے مگر کسی میں نظریہ کارل مارکس کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ بعد میں اس نظریئے کا نام ’’ مارکسزم‘‘ رکھا گیا ، اب یہ اعزاز تم نے اپنے سر لے لیا ہے۔ گزشتہ 35برس قبل جس کے سہارے تم سیاست میں آئے تب سے میں اگر تمہارے نظریئے پر بات کرنا شروع کروں تو کئی کتابیں لکھی جائیں اور اتنا وقت نہ میرے پاس ہے اور نہ ہی حالات ایسے ساز گار ہیں۔
نظریہ:میں نے کیا کیا ہے۔ میرا تو اختیار ہی نہیں تھا کہ میری سیاسی پرورش کس کے پنگھوڑے میں ہو۔ ضمیر:بات پرورش کی نہیں،وہ اعمال ہوتے ہیں جن سے پہچانا جاتا ہے اب ساری عمر تمہاری سیاست کا محور مصالحت اور طاقت رہا ہے یہ طاقت بھی اس کی تھی جسکے کاندھوں پر چڑھ کر تم اپنی من مانیاں کرتے رہے۔اگر تم نظریاتی ہوتے یا کسی نظریئے کی سیاست کر رہے ہوتے تو 1999ء میں ایک موقع آیا تھا جب میں نے تمہیں بہت جھنجھوڑا کہ معافی نہ لکھو مگر تم نے اسوقت میری نہ مانی اور معافی نامہ لکھ کر جدے کے محلوں میں آرام کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ آج تم نظریات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہو، جو شخص نظریاتی ہوتا ہے اُسے بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی،اگر تم نظریاتی ہوتے تو جواکثریت تمہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی وہ نہ جاتی ۔ تمہیں معلوم ہے وہ بھی تمہارے جیسےنظریات رکھتے تھے ۔ جہاں اُنکے مفادات کے نظریئے کو تحفظ ملا فوراًپنا ہ حاصل کر لی ۔ آج بھی یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ عوامی نمائندے آپ کیساتھ ہونگے، جو نہی اڑان کا موسم شروع ہوگا ، یہ سب ’’ محفوظ نظریہ ‘‘ کے مقام پر پناہ لے لینگے۔
نظریہ:مجھے اپنی پارٹی بچانی ہے ، میں تصادم کی سیاست کرونگا یہی آئندہ الیکشن میں میرا نعرہ اور نظریہ ہے ۔
ضمیر:لگتا ہے آج بھی تمہارے مشیر بدلے، نہ سوچ بدلی ۔ دیکھو میں تمہیںبتا رہا ہوں کہ تم جس کے بہت قریب رہے ہو اور اس سے تم جھگڑا نہیں کر سکتے ۔ اگر کرپشن کے ریکارڈ جلوا نا اور اسکی حفاظت کرنا تمہارا نظریہ ہے تو مانا جا سکتا ہے ، لیکن ذاتی مفادات اور مشکلات کیلئے نظریہ کا نام استعمال کرنا تو کوئی نظریہ نہیں ۔
نظریہ: پاکستان کی منزل جمہوریت ہے اور یہ سب کچھ میں جمہوریت کو بچانے کیلئے کر رہاہوں۔
ضمیر:کونسی جمہوریت ، جو آمریت سے بھی بدتر ہے اور جسکے چند نمائندے مردہ ضمیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایک نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بننے کا قانون پاس کرتے ہیں۔
نظریہ: کیا سپریم کورٹ کروڑوں افراد پر مشتمل ہوتی ہے ، جہاں چند جج عوام کا فیصلہ بدل دیں ، انکو کس نے یہ حق دیا ہے۔
ضمیر :تم اتنے بھولے مت بنو ، تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر رہ چکے ہو، آج عدالتوں کو نہ ماننے کا اعلان کر رہے ہو، سپریم کورٹ کو یہ حق آئین دیتا ہے اور جو آئینی ادارے کو نہیں مانتا وہ ریاست سے غداری کا مرتکب ہوتاہے اور اگر تم عدلیہ کو اپنی بے گناہی کے ثبوت نہیں دے سکتے تو تمہارے اس نظریئے کو مان کر عدلیہ کو بند کر دیں ،جو اختیارات اسے آئین نے دیئے ہیں وہ چھین لیں ، تمہارا یہ کہنا کہ جمہوریت کو بچا رہا ہوں تو کیا کوئی ایسا ذی شعور ہے جو اس ملک میں جمہوریت نہیں چاہتا ۔ ہاں یہ کوئی نہیں چاہتا کہ مادر پدر حکمرانی کا دور دورہ ہو اور اس کو جمہوریت کا نام دیا جائے۔ یہ تمہاری خواہش ہوسکتی ہے اسکو نظریہ مت بنائو۔ دنیا بھر میں جمہوریت کو زیادہ ذمہ دار طرز حکومت سمجھا جاتا ہے جہاں تمام ادارے مکمل آزادی کیساتھ کام کر سکیں ۔ تم ہوش کے ناخن لو ، ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ہی نہیں مانتے ۔ یہ سن کر تو میرا ضمیر دہل گیا ہے ، تم اپنی پسند کے فیصلے چاہتے ہو اور عدلیہ تواپنا فیصلہ دے چکی ۔ جلسے ، جلسوں سے برا بھلا کہنےسےفیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے ، اب تم نا اہل ہو نہ الیکشن لڑ سکتے ہو اور نہ ہی وزیراعظم بن سکتے ہو ۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ایسی مہمات سے نیب کیس ختم ہو سکتے ہیں تو فرض کریں یہ کسی این آر او کے تحت ختم ہو جائیں گے، جو اس بار نہیں لگتا کیا تب بھی تم انقلاب پر قائم رہو گے ۔
کیا یہ انقلاب جائیدادیں بچانے کیلئے برپا ہوگا۔ تمہیں میں کیسے سمجھائوں کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں تمہارے انقلابیوں نے سپریم کورٹ پر جو حملہ کیا تھا ، وہ داغ تو آج تک دھل نہیں سکے ۔ اُسکی پر چھائیاں آج بھی تمہارا پیچھا کر رہی ہیں۔ اب دوبارہ اُس سے زیادہ خطرناک راستے پر چلنے کو نظریہ سمجھ رہے ہو ، دیکھو اسکے سارے چھینٹے تمہارے اوپر ہی پڑینگے اور تم اپنے ساتھ پوری قوم کو اس دلدل میں پھنسانا چاہتے ہو ۔ لیکن کوئی بھی عدلیہ پر اعتراض کرنےوالا تمہارا نظریہ پسند نہیں کرتا ۔ تمہارے اس نظریئے کی تشریح وہ کر چکی ہے ۔ تمہارے پاس اپنے آپکو بچانے کا ایک ہی بیانیہ ہے اپنی بے گناہی کے ثبوت فراہم کردو۔ آگے کی طرف بڑھو ، تمہارے مشیر تمہیں اپنے اپنے ’’ مفاداتی نظریہ ‘‘ کے تحت دھوکہ دے رہے ہیں ۔یہ سب عنقریب وعدہ معاف گواہوں کی پہلی صف میں کھڑے ہونگے ۔ لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تصادم کے اس نظریئے سے ملک میں انارکی پیدا کر کے بچ نکلو گے اور اپنے آپکو اس طرح بڑا رہنما ثابت کر لوگے تو تمہاری یہ سوچ ایک چھوٹی فیکٹری چلانے والی سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکی کہ محکمہ ٹیکس یا تنگ کرنیوالے دیگر محکموں کو نوٹ دکھا کر منہ بند کر دو گے، یہ ناممکن ہے ۔ ریاستوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ ریاستیں قائم رہنے کیلئے ہوتی ہیں اور پاکستان تو بنا ہی اللہ کے نام پہ ہے، جو خود اسکی حفاظت کر یگا ۔ اسکا فرمان ہے کہ ’’ اللہ کسی کو عذاب میں مبتلاکیوں کریگا اگر تم اسکے شکر گزار اور مومن ہو‘‘ تو اللہ کی ناراضگی سے بچو، بس تم سوچو کہ کہاں کھڑے ہو ۔ اس تکبر اور غرور کو مت اپنائو جو صرف باری تعالیٰ کی صفت ہے ۔ میں ہمیشہ تمہیں برداشت کرتا آیا ہوں مگر اب تم اس خود غرضانہ نظریئے کا پیچھا چھوڑ دو ،کیونکہ ایسے نظریئے انقلاب نہیں بنتے ، یہ نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں ۔ تم خود سوچ لو کیا تم اپنی نسلوں کو تباہ کرنا چاہتے ہوں ، میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا !

تازہ ترین