• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان میں ’’انہونیوں‘‘ کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ انہونی سے مراد ایسے واقعات، ایسی پیش رفت اور ایسی تبدیلیاں ہیں جو غیر متوقع، اچانک، خلاف روایت اور آسمان سے نازل ہوتی دکھائی دیں۔ انہونی کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ اور عدلیہ اپنا روایتی رویہ اور تاریخی کردار ترک کر کے فوراً آزاد اور طاقتور ہو جائے بلکہ ’’طاقتور ترین‘‘ ہو جائے اور حکمرانوں کو اعتماد میں لئے بغیر آئین، قانون کے مطابق فیصلے کرنے لگے۔ اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج اپنا تاریخی کردار ترک کر کے اپنے آپ کو آئینی دائرہ کار تک محدود کرلے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ جب ’’انہونی‘‘ ہوتی ہے تو لوگ کنفیوژن کا شکار ہونے لگتے ہیں، ان کے لئے اپنا مائنڈ سیٹ فوراً تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا چنانچہ وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ قومی اداروں نے بالآخر اپنا روایتی کردار اور طریقہ کار بدل لیا ہے اور اب وہ آئینی کردار ادا کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ جب لوگوں کا مائنڈ سیٹ جو دہائیوں کے تجربات سے تشکیل پا کر پختہ ہو چکا ہے نئی یا انہونی صورت حال کو قبول نہیں کرتا تو وہ ہر حرکت، ہر پیش رفت حتیٰ کہ ہر فقرے اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر متمکن حضرات کے ہر ڈائیلاگ کے پیچھے محرکات اور مقاصد تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کوئی ثبوت ملے نہ ملے وہ بہرحال ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور بس یہی کہے جاتے ہیں کہ اس اقدام یا اس فیصلے کے پیچھے فلاں ہے اور فلاں فیصلے کے پیچھے فوج کا دبائو ہے۔ ان کی عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ فیصلے آزادانہ اور آئین کی روح کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح فوج ہزار قسمیں اٹھائے کہ ہمارا ان معاملات سے تعلق نہیں وہ پھر بھی فوج کو مورد الزام ٹھہراتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ انہونی اور خلاف روایت بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
یہ بھی ایک انہونی تھی کہ سپریم کورٹ نے پاناما کا نوٹس لیا، جے آئی ٹی بنائی، وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر الزامات کے فیصلے کے لئے مقدمہ احتساب عدالت کے سپرد کردیا۔ ہمارا مائنڈ سیٹ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اتنا بڑا کام عدالت نے خود کیا۔ متاثرین کا جوابی مقدمہ یہ ہے کہ جج حضرات پر دبائو تھا۔ دبائو کس کا تھا اور کیوں تھا، یہ بات جان بوجھ کر مبہم (VAGUE) رکھی جاتی ہے مگر عوام سمجھتے ہیں کہ تیر کہاں مارا گیا ہے۔ سوچ کی اس لہر اور پروپیگنڈے کو (SPACE)یعنی جواز کہاں سے ملا۔ وہ اس سے کہ سپریم کورٹ میں مقدمے کی کارروائی کے دوران الزامات اور کرپشن کی کہانیوں کی بوچھاڑ ہوئی جس سے عوامی توقعات آسمان پر پہنچ گئیں اور لوگ امید کرنے لگے کہ منی ٹریل سے لے کر منی لانڈرنگ تک فیصلے آئیں گے لیکن فیصلہ آیا تو وہ اقامہ پر۔ اول تو لوگ نہیں جانتے کہ اقامہ کا صحیح استعمال کیا ہوتا ہے، اس کی آڑ میں کیا کیا جاتا ہے دوم وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ جن الزامات پر وہ فیصلوں کی توقع کررہے تھے، ان کے فیصلے احتساب عدالت نے دینے ہیں۔ احتساب عدالت کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اپیل ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک کا سفر کرتی ہے جس میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔
ذکر ہورہا تھا انہونیوں کا تو ایک انہونی یہ بھی ہے کہ ہمارے مہربان سابق وزیراعظم جناب میاں نوازشریف نظریاتی شخصیت بن گئے ہیں جو کہ اپنے طور پر بہت بڑ ی انہونی ہے اور جس کا کریڈٹ بہرحال سپریم کورٹ کو جاتا ہے۔ ’’ان کو‘‘ ان کے فکری حواریوں نے یہ تو بتا دیا ہے کہ وہ نظریاتی شخصیت بن چکے ہیں لیکن اس کی وضاحت نہیں کی کہ دراصل ان کی نظریے سے مراد عوامی بالادستی کو یقینی بنانا ہے جس کا آسان سا ترجمہ ہے کہ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کو کوئی عدالت اقتدار سے محروم نہ کرسکے چاہے وہ ملکی وسائل لوٹے، کمیشن خوری کی شہرت کمائے، اپنے عہدے سے فائدے اٹھا کر بیرون ملک اربوں کے اثاثے بنائے وغیرہ وغیرہ۔ میاں صاحب کی بات نہیں لیکن کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے حکمران حلف کا بوجھ نہیں اٹھاتے رہے جن کی کمیشن خوری، رشوت خوری وغیرہ ضرب المثل بن گئی تھیں۔ اگر یہ انہونی روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ سپریم کورٹ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف مقدمات سننے کی جرات کرتی ہے تو اسے ایک صحت مند روایت اور مستقبل کے حوالے سے قبول کرنا چاہئے ورنہ پاکستان میں تو کبھی لوٹ مار کرنے والوں کا ہاتھ پکڑا ہی نہیں گیا۔ یہ بھی ایک انہونی ہورہی ہے کہ اب سابق وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کو سازش کا حصہ قرار دینے کی بجائے صرف عدلیہ کے پانچ ججوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ شاید ان کے مشیروں نے سمجھا دیا ہے کہ فوج کو معاف کردیں، فوج کا قصور نہیں، فوج نے انہیں پہلے بھی سیاسی بحرانوں سے نکالا اور اب بھی فیض آباد دھرنے سے بیل آئوٹ کیا ہے اس لئے اب وہ صرف عدلیہ کو نشانہ بنائیں جس کے پانچ ججوں نے انہیں نکالا حالانکہ تین جج بھی یہ کام کرسکتے تھے۔
کیا پاکستان میں انہونیوں کا موسم شرو ع ہو چکا ہے؟ ایک افواہ کو جنگل کی آگ کی مانند پھیلایا جارہا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کا جنوری تک بستر لپیٹ دیا جائے گا؟ پوچھا جائے کہ کس طرح؟ جب تک حکومت کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور صدر پاکستان 58(2)Bسے محروم ہے، حکومت کیونکر رخصت ہوگی؟ جواب ملتا ہے کہ انہونی ہوگی۔ اسی کے ساتھ اخبارات میں نگران حکومت کے متوقع وزراء اعظم کے نام بھی چھپنا شروع ہوگئے ہیں جن میں سے دو کا تعلق مسلم لیگ ق اور ایک سابق پی ٹی آئی عہدے دار ہیں۔ اول تو نگران کے لئے غیر سیاسی یا غیر وابستہ شخصیت کو نامزد کیا جاتا ہے اور وہ چوائس ہوتا ہے حکمران جماعت اور اپوزیشن کا۔ دوم حکومت مئی تک اپنی ٹرم پوری کرے گی لیکن کہا جارہا ہے کہ حلقہ بندیوں کے ایشو پر سیاستدانوں کے اختلافات اور ناکامی انتخابات کو ملتوی اور قومی حکومت کو جنم دے سکتی ہے۔ جب پوچھتا ہوں کہ ایسا آئین کی کس شق کے تحت ہوگا؟ آئین میں سپریم کورٹ سے قومی حکومت بنوانے اور اسے طویل معیاد دینے کی نہ کوئی شق ہے نہ گنجائش تو جواب ملتا ہے ’’انہونی‘‘؟ لیکن میری محدود عقل اس طرح کی انہونیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لئے مجھے یہ افواہیں لگتی ہیں۔ اسی طرح مجھے یہ تجزیہ مفروضوں کا بادشاہ لگتا ہے کہ فوجی پاکستان میں HUNG یا منقسم اور کمزور پارلیمنٹ چاہتی ہے تاکہ وزیراعظم اس کے تھلے لگا رہے۔ اول تو فوج انتخابات سے مطلوبہ نتائج کس طرح کشید کرے گی کیونکہ میڈیا بھی موجود ہے، عوام بھی پہلے سے زیادہ باشعور، الیکشن کمیشن بھی پہلے سے زیادہ آزاد و مضبوط اور سیاسی پارٹیاں بھی بے حد ہوشیار۔ جواب ’’انہونی‘‘۔ جب پوچھتا ہوں کہ کیا دو تہائی اکثریت والا وزیراعظم فوج کی نہیں مانتا تھا؟ کیا اس نے خارجہ پالیسی، دفاع، ایٹمی پروگرام وغیرہ ان کے حوالے نہیں کر رکھے تھے تو جواب آئیں بائیں شائیں۔ ظاہر بیں ’’آنکھ‘‘ تو دیکھتی ہے کہ فوج اپنے دائرہ کار تک محدود ہے، عدلیہ آزاد اور طاقتور ہورہی ہے جس کا پیغام نچلی عدلیہ تک رنگ دکھا رہا ہے، سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے ہیں اور جمہوری عمل جاری رہے گا لیکن غائب کا علم رکھنے والے تجزیہ نگار اور تجزیہ کار فرماتے ہیں کہ پاکستان میں انہونیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ انہونیاں ہوتی ہیں یا افواہیں ثابت ہوتی ہیں؟ انتظار طویل نہیں بس یہی دو تین ماہ کی بات ہے۔

تازہ ترین