اس مرد قلندر کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تہتر برس ہوگئے۔ یہ کوئی مختصر عرصہ نہیں۔ لگ بھگ پون صدی۔ تہتر برسوں کے شب و روز کی گہری دھند میں لپٹا چہرہ آج بھی اپنے خدوخال کی تمام تر جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ 21/اپریل 1938ء وہ دن تھا کہ لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند، ایک ولولہ تازہ دینے والے عظیم شاعر کی نبضیں تھم گئیں، سانسیں رک گئیں اور دل کی دھڑکنیں ساکت ہوگئیں۔ اسے چاہنے والے عشق و محبت کی بے پناہ وارفتگیوں کے جلو میں اسے، شاہی مسجد سے متصل حضوری باغ میں دفن کر آئے۔ وہ اہل دنیا کی عمومی زبان میں مرگیا لیکن موت آج بھی اس سے کوسوں دور ہے۔
اس نے کہا تھا:
دلت می لرزد از اندیشہ مرگ
زبیمش زرد مانند زریری
بخود باز آ، خودی را پختہ تر گیر
اگر گیری، پس از مردن نہ میری
”تیرا دل خوف سے لرزتا رہتا ہے۔ اس کے ڈر سے تو ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا ہے۔ اپنے آپ کی طرف لوٹ آ۔ اپنی خودی کو پختہ تر کر۔ اگر تو نے یہ پختگی پالی تو تو مرنے کے بعد بھی نہیں مرے گا“۔
اس مرد حق نے اپنے آپ کی طرف لوٹ آنے، اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا بھید جان لیا تھا۔ خودی کو پختہ تر کرنے کا ہنر پالیا تھا۔ اس نے اپنی قوم کو بھی زندگی اور آبرومندی کا یہی درس دیا۔ آج ہم اس کا تذکرہ عقیدت سے کرتے ہیں۔ اس کے دن مناتے، تقریبات منعقد کرتے، اخبارات کے خصوصی ضمیمے نکالتے ہیں۔ ماہرین اقبال، ٹی وی شوز پر فکر اقبال پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کا کلام لہک لہک کے گایا جاتا ہے۔ لیکن وہ اور اس کی حرارت بخش شاعری ہماری زندگیوں میں حرکت، عمل، غیرت، خودی، ایمان، یقین، اعتماد اور جہد مسلسل کی کوئی امنگ نہیں جگاتی۔
میں نے دو برس پہلے بھی کہا تھا اور آج پھر، پہلے سے کہیں زیادہ یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتا تو منہ بگاڑ بگاڑ کر بزدلی کو حکمت اور بے حمیتی کو تقاضائے دانش قرار دینے والے لبرل فاشسٹ، اسے ”غیرت بریگیڈ“ کا سرخیل قرار دے کر۔ زہر میں بجھے تیروں سے اس کا جگر چھلنی کررہے ہوتے۔ اس پہ فرد جرم عائد کی جاتی کہ یہ پامردی مومن کو یورپ کی مشینوں پر ترجیح دیتا ہے، کہتا ہے غیرت بڑی چیز ہے جو درویش کو دارا جیسے بادشاہ کے سر کا تاج پہنا دیتی ہے، فقیری میں امیری کرنے کی لایعنی باتیں کرتا ہے، کہتا ہے کہ جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے وہ تاج و تخت اور لشکر و سپاہ میں بھی نہیں، حق گوئی و بے باکی کو آئین جوانمردی قرار دے کر انتہا پسندی کی تلقین کرتا اور کہتا ہے کہ اللہ کے شیروں کو روباہی نہیں آتی، کہتا ہے کہ کافر شمشیر پہ بھروسہ کرتا ہے اور مومن بے تیغ بھی لڑسکتا ہے، عشق اور جنوں کو عقل پر ترجیح دیتا ہے، کہتا ہے کہ غیر کے آگے جھکنے سے نہ من رہتا ہے نہ تن، مطالبہ کیا جاتا کہ وہ اپنے ان غیرحقیقت پسندانہ، دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ افکار پر نہ صرف قوم بلکہ پوری ملت اسلامیہ سے معافی مانگے، اس کا سب سے بڑا جرم یہ قرار دیا جاتا کہ وہ ”خوف“ کے خلاف ہے اور یوں زمینی حقائق سے بغاوت سکھاتا ہے۔ اس نے ارمغان حجاز میں کہا۔
دل بے باک را ضرغام رنگ است
دل ترسندہ را آہو پلنگ است
اگر بیمی نداری، بحر صحر است
اگر ترسی بہر موجش نہنگ است
”نڈر دل کے لئے شیر بھی بھیڑ ہے۔ ڈرپوک دل کے لئے ہرن بھی چیتا ہے۔ اگر تو دل میں خوف نہیں رکھتا تو سمندر بھی تیرے لئے چٹیل میدان کی طرح ہے اور اگر تو خوفزدہ ہے تو تیرے لئے پانی کی ہر موج میں خونی مگرمچھ چھپا ہوا ہے“۔
اور اپنے آپ کو جابروں اور زور آوروں کے تابع کرکے غلامانہ زندگی گزارنے والے سے وہ کہتا ہے:
بہ گوشم آمد از خاک مزارے
کہ در زیر زمیں ہم می تواں زیست
نفس دارد و لیکن جاں نہ دارد
کسے کو بر مراد دیگراں زیست
”ایک قبر سے میرے کان میں آواز آئی کہ زمین کے نیچے بھی زندہ رہا جاسکتا ہے لیکن جو شخص اپنی زندگی دوسروں کی مرضی کے تابع کردیتا ہے، اس کی سانس تو آتی جاتی رہتی ہے لیکن اس کے بدن میں جان ہوتی ہے نہ روح“۔
”رموز بے خودی“ میں علامہ نے سورہ اخلاص کی منظوم تفسیر کی ہے۔ ”اللہ الصمد“ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ نے کمال کے نکات اٹھائے ہیں۔ آئیے اس نورانی فکر سے کچھ روشنی سمیٹتے ہیں:
گر بہ اللہ الصمد دل بستہ ای
از حد اسباب بیروں جستہ ای
بندہ حق، بندہ اسباب نیست
زندگانی گردش دولاب نیست
”اگر تو نے اس بے نیاز اللہ سے دل لگا لیا ہے تو گویا تو خود بھی اسباب کی دنیا سے باہر نکل آیا ہے کیونکہ خدا کا سچا بندہ، دنیوی مال و اسباب کا غلام نہیں ہوسکتا۔ زندگی رہٹ کی طرح گردش نہیں کرتی کہ کنوئیں کا ڈول بار بار ایک ہی دائرے میں رہے اور کنوئیں تک محدود ہوجائے“۔
”اللہ الصمد“ کی تشریح میں علامہ کہتے ہیں۔
”اگر تو صحیح معنوں میں مسلمان ہے تو اللہ کے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہوجا اور ساری دنیا کے لئے سراپا خیر بن جا۔ کسی امیر شخص کے سامنے اپنی کم نصیبی کا شکوہ نہ کر اور کبھی اپنا ہاتھ اپنی جیب سے مت نکال۔ حضرت علی کی طرح جو کی روٹی پہ قناعت کرلے لیکن مرحب کی گردن توڑنے اور خیبر فتح کرنے کا حوصلہ پیدا کر۔ امیر یا سخی لوگوں کا احسان کیوں اٹھایا جائے۔ ان کی ”نہ“ یا ”ہاں“ کا نشتر کس لئے کھایا جائے؟ گھٹیا اور کمینے لوگوں سے اپنا رزق مت حاصل کر۔ تو یوسف ہے، اپنے آپ کو اتنا سستا نہ سمجھ۔ اگر تو نہایت ہی حقیر بے بال و پرسی چیونٹی ہی کیوں نہ ہو، اپنی کوئی حاجت وقت کے کسی سلیمان کے پاس نہ لے جا۔ زندگی کا راستہ بڑا کٹھن ہے اس لئے تھوڑا سامان لے کر چل۔ دنیا میں آزاد زندگی بسر کر اور آزادی کی باوقار موت مر۔ جہاں تک ممکن ہو، کیمیا کی طرح اکسیر بن، کیچڑ مٹی نہ بن۔ زمانے میں ہاتھ سے دینے والا بن، ہاتھ پھیلانے والا سائل نہ بن۔ تو بوعلی قلندر کے نام سے واقف ہے۔ اس نے کیا کمال بات کی تھی کہ کیکاؤس کے تخت کو پاؤں کی ٹھوکر میں رکھ اور وقت آئے تو اپنا سر کٹالے لیکن اپنے ناموس پر آنچ نہ آنے دے۔ اگر تیرا جام خالی ہے لیکن تو بے نیاز ہے تو تیرے لئے میکدے کا دروازہ خود بخود کھل جائے گا۔ ایک بار خلیفہ ہارون الرشید حضرت امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ گلزار حدیث کے نغمہ پرداز ہیں۔ میں آپ سے حدیث کے بھیدوں کا درس لینا چاہتا ہوں۔ آپ جیسا لعل بے بہا کب تک یمن میں پڑا رہے گا۔ اٹھئے اور دارالخلافہ تشریف لے چلئے کہ عراق کے حسن و جمال کا جواب نہیں۔ حضرت امام مالک نے کہا…! ”اے خلیفہ! میں تو محمد مصطفٰی کا نوکر ہوں۔ حضور کے عشق کے سوا میرے سر میں کوئی سودا نہیں، میں تو حضور کی ذات گرامی سے بندھا ہوں۔ میں تو حضور کے حرم پاک سے اٹھنا نہیں چاہتا۔ میں تو خاک مدینہ چوم کر زندہ ہوں۔ عراق کے چمکتے دمکتے دن کے مقابلے میں میری یہ رات کہیں روشن و افضل ہے۔ عشق کا تقاضا ہے کہ میں بادشاہوں کی خدمت گزاری کے بجائے اس کا حکم مانوں۔ تو میرا آقا بننا چاہتا ہے اور ایک آزاد انسان کو اپنی آقائی میں لینا چاہتا ہے۔ کیا تجھے درس حدیث دینے کے لئے میں تیرے دروازے پہ آؤں؟ ملت کا خادم بننے کے بجائے تیرا خادم بن جاؤں؟ اگر تجھے علم دین حاصل کرنے کی خواہش ہے تو میرے حلقہ درس میں شامل ہوجا۔ بے نیازی میں بڑے ناز ہیں اور اس کے ان نازوں کے سوسو انداز ہیں۔ بے نیازی، دراصل حق کا رنگ اختیار کرلینے اور اپنا لباس غیراللہ کے رنگ سے دھولینے کا نام ہے“۔
مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے افکار و خیالات رکھنے والے شخص کو ”غیرت بریگیڈ“ کے سرخیل کے طور پر لہولہان کردیا جاتا۔ اگر وہ لبرل فاشسٹوں کی بھرپور مہم کے بعد بھی معافی نہ مانگتا اور اپنے خیالات سے ثابت نہ ہوتا تو یقیناایک ریفرنس دائر کیا جاتا کہ
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو