”ہاں میں باغی ہوں“ کے مصنف جاوید ہاشمی نے ایک اور بغاوت کرڈالی۔ خود معافی مانگ لی اور اپنے قائدین سمیت باقی سیاسی رہنماؤں کو ماضی کی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگنے کی نصیحت کردی لیکن اب ردعمل میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا، اس کے بعد لامحالہ انہیں ایک اور معافی مانگنی ہوگی۔ اصولوں کی خاطر آزمائش کے دنوں میں اپنی قیادت کے ساتھ وفاداری نبھانے اور قربانی دینے کی ”غلطی“ پر معافی۔
سیاستدانوں سے زیادہ گناہگار شاید ہم اہل صحافت ہیں جو یہاں کی سیاست کو موضوع بحث بناتے اور اس پر اپنا یا قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ کوئی جماعت حکومت میں جاتی ہے یا نکلتی ہے ، کسی کے ساتھ کسی کا اتحاد بنتا ہے یا بگڑتا ہے ، کوئی قاف میں رہتا ہے، ن میں جاتا ہے،ہم خیال بنتا ہے ، پی پی پی میں رہ کر خوشحال بنتا ہے یا پھر ناہید خان اور شاہ محمود بن کر بدحال ہوجاتا ہے۔ اس سے ملک اور قوم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ پاکستانی سیاست کی کتاب سے اصول اور نظریات کو نکلے ہوئے عرصہ بیت گیا ہے۔ اب یہ صرف اور صرف مفادات کی جنگ کا دوسرا نام ہے ۔ ذاتی مفاد سے بات آگے بڑھ جائے تو خاندانی مفاد کا دائرہ شروع ہوجاتا ہے ۔ کوئی اس سے نکلے تو گروہی ، مسلکی اور پارٹی مفاد شروع ہوجاتا ہے ۔ نعرے سہانے اور دعوے دل لبھانے والے ہوتے ہیں لیکن پاکستانی سیاست عملا مذکورہ مفادات کے گرد گھوم رہی ہے ۔ ہدف اور مقصد ایک لیکن طریقہ واردات مختلف ہے۔ نام، اسلام، پاکستان، عوام، جمہوریت ، ملکی دفاع، قومی مفاد وغیرہ کا لیا جاتا ہے لیکن ملک و قوم کے اصل مسائل کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کی ترجیح نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ملکی سیاست میں ہر موضوع زیربحث ہے سوائے قوم کو درپیش اصل موضوعات کے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں اسے اس صورت حال سے نکالنا اور فلاحی ریاست کی طرف گامزن کرنا شامل نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مسئلہ ،ام المسائل کی حیثیت حاصل کرچکا ہے لیکن سیاسی قیادت کو اس کی سمجھ ہے اور نہ اس سے کوئی سروکار ۔ پختون بلٹ اور بلوچستان کے مسائل سے ملکی مستقبل داؤ پر لگا نظر آرہاہے لیکن سیاست دیگر ایشوز کے گرد گھوم رہی ہے۔ ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کراچی بارود کا ڈھیر بن گیا ہے لیکن اسے بڑھک باز اور ڈرامہ بازوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے لیکن پارلیمنٹ میں اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا ۔
اقتدار کی طوالت معیار ہو تو زرداری صاحب بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے بھی بڑے سیاستدان ثابت ہوئے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست جتنی ان کے دور میں بے توقیر ہوئی، پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ فوج، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی حلیف و حریف ، سب کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی ہے۔ ایک ہاتھ گلے اور دوسرا اس کے قدموں پر۔ جہاں موقع ملتا ہے گلا دباتے ہیں اور بات نہ بنے تو پاؤں پڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔ میاں نوازشریف دوکشتیوں (حکومت بھی اور اپوزیشن بھی) کے سفر کو انجوائے کررہے ہیں۔ مطمئن ہی نہیں کسی حد تک سیاسی تکبر کے بھی شکار ہیں۔ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کچھ کریں یا نہ کریں ، اگلی ٹرم ان کی ہی ہے۔ بات جمہوریت کی کرتے ہیں لیکن اپنی پارٹی میں انتخابات تو دور کی بات تنظیم سازی تک نہیں کرسکتے۔ یہ واحد جماعت ہے کہ جس میں اہم شخصیات شامل ہونا چاہتی ہیں لیکن اس کی قیادت کے پاس ان کو اپنی جماعت میں شامل کروانے کے لئے وقت نہیں۔ رہی مسلم لیگ (ق) تو وہ پہلے سیاسی جماعت کی تعریف پر اترتی تھی اور نہ اب ہے ۔ جہاں سے دانہ ڈالا گیا، وہاں چل پڑے گی ۔ ہم تو کیا مولانامفتی محمود مرحوم بھی دنیا میں واپس آجائیں تو انہیں مولانا فضل الرحمان کی سیاست کو سمجھنے میں پچاس سال لگیں گے۔ اتنا بہ ہر حال ہم سمجھ رہے ہیں کہ ان دنوں ان کی سیاست اعظم سواتی اور رحمت اللہ کاکڑ کی وزارتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سید منور حسن کو دیکھ کر مجھ سمیت اکثر لوگوں کو قاضی حسین احمد کی امارت کی یاد ستانے لگ گئی ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست بس احتجاج کا دوسرا نام ہے۔ مہینے میں کم از کم چار دن احتجاج کرنا طے ہے ۔ دھرنوں کا پروگرام پہلے بنتا ہے اور اس کے لئے وجہ اور ایشو بعد میں تلاش کئے جاتے ہیں۔ پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والی اے این پی نے پختون فروشی کی نئی تاریخ رقم کردی۔ قوم فوج اور عسکریت پسندوں کے رحم وکرم پر ہے اور پختونخوا حکومت لوٹ کھسوٹ میں مصروف ۔ ظلم کی انتہادیکھئے کہ جس پختون پولیس والے کو خودکش حملہ آوروں کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے ، اس کے لئے غیرملکی خیرات سے جو کلاشنکوفیں اور بلٹ پروف جیکٹ خریدے گئے، وہ بھی دو نمبر نکلے۔ اسفندیار ولی خان اسلام آباد یا دوبئی میں غائب رہتے ہیں اور محمود خان اچکزئی کوئٹہ میں گوشہ نشین ہیں۔ ایم کیوایم حکومت میں آتی اور جاتی ہے لیکن قوم کے ایشوز پر نہیں بلکہ ذولفقار مرزا کے بیانات کی بنیاد پر ۔ ہم وطن واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن اب لندن میں بھی کم دستیاب رہتے ہیں۔ یہ جماعت قومی جماعت بننے کی آرزو لگائے بیٹھی ہے لیکن اپنے دامن پر لگے داغوں کو دھوسکی اور نہ عوام کی نظروں میں اپنے امیج کی تبدیلی کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرسکی۔ رہے عمران خان صاحب تو ان کا دل پھر کوئے ملامت کا طواف کرنے لگا ہے اور جو سیاست مارپڑنے کے بعد انہوں نے 2002ء میں ترک کی تھی، دوبارہ شروع کربیٹھے ہیں۔
جمہوری اصولوں پر یقین تقاضائے ایمان اور اس کا تسلسل ملکی بقا اور ترقی کا واحد راستہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے اور اس میں سیاسی قیادت کا رول کیا ہے؟ خارجہ پالیسی فوج چلارہی ہے ۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ جو کھیل ، کھیل رہا ہے ، اسکے جواب میں سارا کھیل فوج کھیل رہی ہے ۔ بلوچستان کا معاملہ فوج کے سپرد ہے ۔ وزیراعلیٰ کا رول صرف وزیراعلیٰ ہاؤس کے مزے لوٹ یا پھر وزراء کی بڑی فوج پر مشتمل کابینہ جس میں بعض اغواء کار بھی شامل ہیں،کے اجلاسوں کی صدارت کرنے تک محدود ہے۔ وار آن ٹیرر کی سیاسی قیادت کو سمجھ ہے اور نہ اس کو اس سے کوئی سروکار ہے ۔ قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ میں جو کچھ ہورہا ہے فوج کررہی ہے ۔ پختونخوا حکومت دو سالوں میں وہاں کا انتظام بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکی۔ اب تو اقتصادی ٹیم بھی فوج کو بنانی اور چلانی پڑرہی ہے ۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا حصہ رہنے پر قوم سے معافی مانگ کر مخدوم جاوید ہاشمی نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ ان اور ہم جیسے وہ لوگ جو پرویز مشرف کے دور میں جمہوریت کی بحالی کی دہائی دیتے رہے ، کہیں سیاسی قائدین کی نااہلیوں اور خودغرضیوں کی وجہ سے آمریت کی مخالفت اور جمہوریت کی حمایت پر قوم سے معافی مانگنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق فوجی آمر پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں مل کر بڑی دیر تک ملکی حالات کی ابتری کا رونا روتے رہے ۔ بحث طویل ہوگئی تو پرویز مشرف طعنہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ سلیم ! اب بھگتو اپنی جمہوریت کو ۔ میرے دور میں تمہارے پیٹ میں بھی جمہوریت کا بہت مروڑ اٹھ رہا تھا۔ ان کو تو میں نے ترکی بہ ترکی جواب دے دیا لیکن میں حیران ہوں کہ اگر وہ فون اٹھا کر مخدوم جاوید ہاشمی اور اعتزاز احسن کو ایسا طعنہ دے ڈالیں تو وہ کیا جواب دیں گے۔