سیالکوٹ کے ایک عام روایتی دیندار گھرانے میں اقبال پیدا ہوئے ۔ اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ سے بچپن ہی میں انہیں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خزانہ نصیب ہوا ۔ سیالکوٹ میں مولوی میرحسن سے مشرقی ادب اور آداب سیکھے اور گورنمنٹ کالج لاہورمیں پروفیسر آرنلڈ جیسے قابل استاد سے مغربی فلسفہ اور علوم سے آشنائی حاصل کی ۔ مغرب اور مشرق کا یہ امتزاج ان کی ابتدائی شاعری میں نمایاں رہا۔ اس ابتدائی شاعری میں ایک طرف حجاز مدینہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہرے تعلق کے آثار نظر آتے ہیں جو انہیں والدین سے ورثے میں منتقل ہوئے تھے اور دوسری طرف ہندوستانی قوم پرستی کے جذبات نظر آتے ہیں۔ جو اس وقت کی قوم پرستی کی تحریک کے اثرات ہیں اور مغربی قوم پرستی کی تحریک کا نتیجہ ہیں۔ 1905ء سے پہلے ان کی شاعری میں ہندی قوم پرستی کی مشہور نظموں ترانہ ہندی ،ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نیا شوالہ کے ساتھ ساتھ بلال پر ان کی نظم بھی موجودہے۔ ایک ہی وقت میں ہندی قوم پرستی کے نغمے اور عشق رسول کا امتزاج یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ بیس پچیس سال کے نوجوان تھے اور ان کی فکر میں ابھی اسلامی حوالے سے پختگی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ ہندی قوم پرستی کے اثرات کے تحت انہوں نے وہ ہندی ترانہ تخلیق کیا جو آج بھی ہندوستان میں گایا جاتاہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس کے ساتھ ہندوستانی بچوں کا گیت
چشتی نے جس زمین میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے۔ میرا وطن وہی ہے۔
اس دور کی مشہور نظم ”نیا شوالہ “ ہے۔اس نظم میں نوجوان اقبال کی وطن پرستی کھل کر سامنے آگئی ہے جب وہ برہمن کو دعوت دیتاہے کہ بتوں کی عبادت چھوڑ کر سب مل کر ہندوستان کی مٹی کی پوجا کریں ۔
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برانہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھاہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتاہے
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
یہ نیا شوالہ یا نیا مندر ہندوستان کی سرزمین ہے۔
1907ء میں اقبال کی شاعری میں ایک انقلابی تبدیلی نظر آتی ہے ۔ مارچ 1907ء میں ان کی مشہور نظم سامنے آتی ہے جس میں وہ ایک نئے دور کا خواب دیکھتاہے اور کہتاہے کہ یہ خواب مجھے فرشتوں نے دکھایا ہے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی ہے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ حسن اب آشکار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سناہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیارہوگا
اس زمانے میں جب وہ سمندر ی جہازکے ذریعے انگلستان سے واپسی پر جزیرہ سسلی کے کنارے پہنچتاہے تو وہ ”صقیلہ“ (سسلی ) کا دردناک مرثیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں:
رولے اب دل کھول کر اسے دیدئہ خوننابہ بار
وہ نظر آتاہے تہذیب حجازی کا مزار
صقیلہ جو کبھی اسلامی تہذیب کا گہوارہ تھا اور اب حجازی تہذیب کے زوال کا نمونہ ہے اقبال کے غمگین دل کے ساز چھیڑتاہے اور ایام سلف کا قصہ صقیلہ سے سن کر تڑپتے ہوئے کہتا ہے۔
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤ ں گا
خود یہاں روتا ہوں اور وں کو وہاں رلواؤں گا
1908ء کے بعد ان کی شاعری خالص اسلامی شاعری ہے اور اس کے بارے میں اقبال خود کہتا ہے۔
من اے میرامم داد از تو خواہم
مرا یاراں غزلخوانے شمردند
اے تمام اُمتوں کے سردار میں آپ سے فریاد کرتاہوں کہ میرے دوستوں نے مجھے غزل کہنے والا سمجھا ہے۔
اور دوسری جگہ فرمایا !
نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہٴ بے زمام را
کہاں شاعری اور کہاں میں ، یہ شعر وشاعری تو ایک بہانہ ہے۔ میں تو اصل میں بے مہار اونٹنی کو قطار کی طرف کھینچ رہاہوں (یعنی قوم کی تنظیم کا کام کررہاہوں )
اُردو کے ایک شعرمیں فرماتے ہیں۔
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم رازِدرون میخانہ
اس کے بعد وہ ”شکوہ “ اور ”جواب شکوہ “لکھتے ہیں ۔ اور اپنی معرکہ آراء مثنوی اسرار خودی اور رموز بے خودی لکھتے ہیں ۔اسرار خودی میں وہ اپنے فلسفہ خودی کی روشنی میں ایک اچھے اور سچے مسلمان فرد کے بلند اخلاق کا تصور پیش کرتے ہیں اور رموزے بے خودی میں وہ ان افرا د کو ایک مضبوط اُمت اور قوم میں تبدیل کرنے کے اصول گنواتے ہیں۔جس اقبال نے ہندی ترانہ کہاتھااسی اقبال نے انگلستان سے واپسی پر ملی ترانہ لکھا جس اقبال نے انگلستان جانے سے قبل کہاتھا ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا “ اس اقبال نے واپسی پر کہا
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
ہندوستان قومیت کی بجائے وہ مسلم قومیت کا علمبردار بنا اور جس نے ”نیا شوالہ “ نظم میں کہاتھاکہ خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتاہے۔وہی اقبال کہہ رہاہے کہ !
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اور وہ مسلمانوں کو دعوت دے رہاہے کہ:
نظارہٴ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
وطنیت کے بت کو توڑتے ہوئے وہ طارق بن زیادکی زبانی اُمت مسلمہ کو پیغام دیتاہے۔
طارق جو برکنارہٴ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار توزنگاہ خردخطاست
جب طارق نے اندلس کے ساحل پر کشتیاں چلائیں تو ساتھیوں نے کہاکہ عقل کے بہ موجب تمہاراکام غلط ہے
دورایم از سواد وطن بازچوں رسیم
ترکِ سبب زِروئے شریعت کجا رواست
وطن کی مٹی سے دور ہیں واپس کیسے جائیں گیشریعت کی رو سے سبب کو ترک کرنا کہا ں جائز ہے
خندیدہ دست خویش بہ شمشیربردوگفت
ہر ُملک مِلک ماست کہ ِملک خدائے ماست
مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ تلوارکی طرف بڑھایا اور کہا ہر ملک ہماری ملکیت ہے کہ ہمارے خدا کی ملکیت ہے۔
اقبال نے اس وقت مصطفی کمال سے بڑی امیدیں باندھی تھیں جب وہ سلطان عبدالحمید کے دور میں ترک خلافت کو مغربی یلغار سے بچانے کے لئے جان لڑا رہاتھا۔ لیکن جب اس نے خلافت کو ختم کرکے سیکولرازم کے نظام کو اپنایا اور عربی رسم الخط ختم کرکے لاطینی رسم الخط رائج کیا۔ تو اقبال نے مصطفی کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،
لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ”لاغالب الاھو“
(جاری ہے)