• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستان میں ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ تبدیلی آرہی ہے۔ مقام بدل رہے ہیں، جگہ بدل رہی ہے۔رویّے بدل رہے ہیں، انسانی رشتے بدل رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ تبدیل ہورہے ہیں۔ ترجیحات پہلے جیسی نہیں رہیں۔پسند نا پسند کچھ کی کچھ ہو گئی ہے اور قدم پہلے جدھر اٹھتے تھے، اٹھنے بند ہوگئے ہیں۔رُخ اختیار کرنے میں لوگ پہلی جیسی احتیاط نہیں برتتے۔ فیصلے کچھ عجب طرح کے ہو چلے ہیں، نتیجے عجیب طورکے اخذ ہونے لگے ہیں۔معیشت اور معاشرت کے ڈھب بدل چلے ہیں۔ پھر یہ کہ زندگی کا ایک جیسا روّیہ ، ایک جیسا چلن نہیں رہا۔ کہیں مزاجوں میں شدّت آرہی ہے تو کہیں قدامت کا رنگ گہرا ہوا جاتا ہے۔ کہیں بدلتے ہوے تقاضے انسانی قدروں کو یکسر بدلے ڈالتے ہیں اور کہیں جدید ایجادات زندگیوں میں اندر تک آکر صبح وشام کے معمولات کا حلیہ یوں بدل رہی ہیں کہ کچھ عرصے بعد پہچانے نہیں جاسکیں گے۔
اس اکھاڑ پچھاڑ کے بھی دو رُخ ہیں۔ ایک جانب خوش حالی اپنے جلوے دکھا رہی ہے، کبھی دولت کی فراوانی دیکھنے میں آتی ہے، پہلے جہاں اسٹور کھلا کرتے تھے اب وہاں سپر اسٹور کھل رہے ہیں، پہلے جہاں لوگ خریدا ہوا سودا ایک تھیلے میں لے جایا کرتے تھے اب اسی سودے سے پہلے ٹرالی بھرتے ہیں اور پھر کار کی ڈگّی۔ دکانوں میں ولایتی ما ل ابلاپڑتا ہے۔ مال بھی ایسا کہ ضرورت نہ ہو پھر بھی خریدنے کو جی چاہے ۔چین کی مصنوعات سے لوگوں کے گھر بھر گئے ہیں۔ ایک جھونپڑی دیکھی جس کے اوپر ڈش انٹینا لگا تھا۔ ایک اورخستہ حال مکان میں بڑی الماری جیسا ریفریجریٹر دیکھا۔ پوچھا کہ کہاں سے آیا۔ پتہ چلا کہ علاقے کے ایک مالدار شخص کے بچّے اسے پھینک کر نیا ریفریجریٹر لے آئے ہیں۔ ذرا دھیان سے دیکھیں تو یہ خوش حالی ظاہری لگتی ہے۔ اسے دیکھ کر کسی نے کہا کہ اگر ملک میں بددیانتی او رکرپشن ختم ہوجائے تو اس سپر مارکیٹ میں خاک اڑے گی۔ یہ ساری خرید و فروخت ہوا ہوجائے گی اور لوگ ایک بار پھروہی تھیلا بھر شاپنگ کرنے لگیں گے۔ دولت کی بھرما ر کا یہ عالم دیکھا کہ ایک خاتون اپنا فلیٹ فروخت کرنے لگیں تو کئی لوگوں نے اس کی بولی لگائی۔ ایک صاحب نے بھاری رقم کی پیش کش کی مگر ساتھ ہی ایک شرط رکھی۔ وہ یہ کہ آدھی قیمت بینک کے ذریعے اداکریں گے اور آدھی قیمت سوٹ کیس میں بھر کر کرنسی نوٹوں کی شکل میں دیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ منظور ہو تو لیں ورنہ جانے دیں۔ ظاہر ہے کہ نقد دی جانے والی رقم کے منہ پر کالک ملی ہوگی جسے عرف عام میں بلیک منی کہا جاتا ہے۔
خوش حالی کے عجب ڈھنگ دیکھے۔ کراچی کے علاقے میں جو ڈیفنس کے نام سے مشہور ہے، خالی پڑے ہوئے بڑے سے پلاٹ پر چائے خانہ کھول دیا گیا ہے جس میں جا بجا پلاسٹک کی میز کرسیاں پڑی ہیں اور لوگ رات رات بھر وہاں بیٹھے خوش گپیاں کر رہے ہیں، تاش کھیل رہے ہیں ، عرصے بعد ملاقاتیں کر رہے ہیں یا نئے نئے دوست بنا رہے ہیں۔ وہاں دس طرح کی چائے دستیاب ہے اور ہر پیالی کی قیمت یکساں،ایک سو روپے کہ نصف جس کا فقیر کو دو تو منہ بناتا ہے۔
اوپر سے ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے اور وہ ہے موبائل فون۔ کل رات احباب کے ساتھ کھانے پر گئے۔ احباب پورے وقت فون پر جھکے خدا جانے کیا کرتے رہے۔ لندن تک میں جو لو گ چلتی ٹرین میں اخبار پڑھا کرتے تھے، اب موبائل فون پر جھکے رہتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی زمیں دوز ٹرینوں میں کھڑے ہوکر سفرکرنے کے دوران جتنی جگہ میں پانچ مسافر سماتے تھے، اب چار ہی سما پاتے ہیں کیونکہ چاروں اپنے اپنے ٹیلی فون پر جھکے ہوتے ہیںاور ان کے جھکے ہوئے سر ایک مسافر کی جگہ کھا جاتے ہیں۔ یہی انداز پوری دنیا اختیار کر رہی ہے۔
پاکستان میں اور اندرون سندھ میں ایک بڑا کام ہوتے دیکھا۔ غیر سرکاری ادارے جنہیں این جی اوز کہا جاتا ہے، تعلیم کے شعبے میں کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا تو جو حال ہے اس پر صبر ہی کر لینا بہتر ہے لیکن غیر سرکاری ادارے جس جاں فشانی سے تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں اسے دیکھیں تو یقین نہیں آتا۔ انہوں نے دور دراز دیہات میں جہاں کسی نے کبھی اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی، وہاں جا کر اسکول قائم کردئیے ہیں۔ کوئی اسکول چھپر میں قائم ہے کو ئی جھونپڑی میں، اور سب میں بچّے پڑھ رہے ہیں ۔ سب کے ہاتھ میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف اور دوسرے امدادی اداروں کے دئیے ہوئے نیلے بستے اور خاص طور پر لکھی گئی کتابیں ہیں۔ کہیں کہیں ایسے بڑے بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے جنہیں الف کے نام بے بھی نہیں آتی اور انہیں پڑھانے کے لئے ٹیچر کی بھی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ ان ہی علاقوںمیں یو ایس ایڈ یعنی امریکی امداد سے بنے ہوئے جدید طرز کے صاف ستھرے اسکول بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی تعمیر میں ایک پیسے کی بھی دھاندلی نہیں ہوئی اور ان کی تعمیر کے دوران اشتہار جاری ہوا کہ اگر آپ کہیں بد دیانتی کا شائبہ بھی دیکھیں تو فلاں فون نمبر پر اطلاع دیں۔ اس طرح سندھ کے کھیتوں میں کھڑی جدید عمارتیں کچھ حوصلہ بڑھاتی ہیں کہ اسی بہانے ہمارے بچوں کو کھری تعلیم مل رہی ہے۔
اسی سندھ میں تلہار کے علاقے میں ڈاکٹر سومار کھوسو کا وہ اسکول بھی دیکھا جو چٹائیو ں سے بنا ہے اور جس کے اوپر چھپر پڑے ہیں ۔وہاں گاؤں دیہات کے ساڑھے تین سو بچے تعلیم پارہے ہیں اور تعلیم بھی ایسی کہ یقین نہ آئے۔ وہاں ٹیلی وژن جیسی بڑی سی اسکرین نصب ہے جس پر امریکہ اور کینیڈا میں بیٹھے ہوئے رضا کار استاد ہمارے بچّو ں کو جدید تعلیم دے رہے ہیں۔ سبق کے دوران بچے اور استاد، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔جس روز میں اس عجیب و غریب اسکول کو دیکھنے گیا، اگلے روز ایک جاپانی فرم والے وہاں آرہے تھے جو ان بچوں کی مصوری کا مقابلہ کرائیں گے۔ اول آنے والے بچے کو اس کے والدین کے ساتھ جاپان کی سیر کرائی جائے گی۔اس روز بچّوں پر رشک آیا۔ چونکہ اپنے ہی بچّے ہیں، ان پر پیار بھی آیا۔سوچا ہم بھی مصوری سیکھیں گے مگر اس بار مہ رخوں کے لئے نہیں۔ یہ ہمارا دور ہے، غالب کا نہیں۔

تازہ ترین