• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس فوری طور پر بند کرنے کا جو فیصلہ آج سے چھ ہفتے پہلے اکتوبر کے مہینے میں کیا گیا تھا اس کے منفی نتائج اب پوری شدت سے سامنے آرہے ہیں۔ مقامی آئل ریفائنریاں اپنی پیداوار میں مسلسل کمی پر مجبور ہیں جس کی بناء پر اب مسافر جہازوں اور پاک فضائیہ کے طیاروں کے لیے بھی تیل کی سخت قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک تازہ میڈیارپورٹ کے مطابق ملک کی کم و بیش تین درجن ریفائیزریوں اور تیل فروخت کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے حکومت پاکستان کے پٹرولیم ڈویژن کو متنبہ کیا ہے کہ پیداوار کم کرنے پر مجبور ملک کی تمام آئل ریفائنریاں اب مکمل طور پر بند ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں لہٰذا ملک کے ہوائی اڈوں پر مسافر جہازوں کے لیے پٹرول کی فراہمی دشوار ہوگئی ہے جبکہ پاک فضائیہ کے طیاروں کے لیے تیل میسر نہ ہونے سے ملک کی سلامتی کے مسائل رونما ہوسکتے ہیں۔ تیل کی فراہمی کا سرکاری سرپرستی میں چلنے والا ملک کا سب سے بڑاادارہ پاکستان اسٹیٹ آئل بھی اپنے صارفین کو ہدایت کررہا ہے کہ وہ ملک کے اندر تیل کے حصول پر کم سے کم انحصار کریں۔تیل کی قلت پر قابو پانے کے لیے بڑی مقدار میں فوری طور پر درآمد ضروری ہے ، اطلاعات کے مطابق تیل کے دوجہاز منگوائے بھی گئے ہیں لیکن ان کی آمد رواں ہفتے کے اختتام سے پہلے متوقع نہیں جس کی بناء پر تیل کا بحران نہایت سنگین ہوگیا ہے۔ یہ صورت حال بظاہر تمام پہلوؤں کا جائزہ لیے بغیر تیل سے چلنے والے تمام پاور پلانٹس کی فوری بندش کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ فیصلہ صارفین کو ایل این جی سے تیار ہونے والی سستی بجلی کی فراہمی میں معاون ہو لیکن اسے بتدریج نافذ کیا جاتا اور آئل ریفائنریوں کو متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے مناسب وقت دیا جاتا تو یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔ بہرحال اب اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے بلاتاخیر تمام ضروری اقدامات کا عمل میں لایا جانا ضروری ہے تاکہ عام پروازیں بھی متاثر نہ ہوں اور پاک فضائیہ بھی ملک کی حفاظت کے لیے پوری طرح سرگرم رہ سکے۔

تازہ ترین