• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شک نہیں، حق و باطل کا آخری معرکہ شروع، بمطابق احادیث مبارکہ، پہلے ہلے میں مسلمانوں کی شکست یقینی، مولی گاجر کی طرح کٹنا ہے۔ قتل عام ایسا کہ الامان الحفیظ!‘‘ بیت المقدس سے ایک پرندہ اڑے گا، مدینہ تک بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی کہ سر زمین عربستان پر لاشیں بکھری ہوں گی (حدیث)۔ سوال ہوا، یا رسول اللہ ﷺ،‘‘تعداد میں کم ہونگے؟ ہرگز نہیں، تعداد کئی گنا زیادہ ہو گی‘‘۔ خلفشار، انتشار میں غرق،امت مسلمہ نے ایک دفعہ غرقاب ہونا ہے۔ مسجد اقصیٰ کا مسمار ہونا، سرحدوں نے بیت اللہ اور مدینہ المنورہ تک پہنچنا ہیـ۔ یہی کچھ پیش گوئیوں میں ہے، ہمارے ایمان کا حصہ۔ ’’سینوں میں کچھ بھی مخفی نہیں رہنا، برآمد ہو کر رہے گا، جانچ پڑتال ہو گی ‘‘العدیات(9-10)۔ عظیم حادثہ (القارعہ) رونما ہوا چاہتا ہے؟ وہ دن سر پر؟۔’’ وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح اور پہاڑ رنگ برنگ دھنکے ہوئے اون کی مانند ہوں گے‘‘ القارعہ(4-5)۔ پیرو مرشد، حکیم الامت کو قرآن کا بہترین ترجمان سمجھتا ہوں، مانگی دعائوں میں تاثیر دیکھی ہے۔ عظیم قیادت اور مملکت خداداد اسلامیہ، پیرو مرشد کی لامتناہی دعائوں کا ثمر ہی تو تھا۔’’ ممولے کو لڑا دے شہباز سے‘‘ ،ایسی خواہش سے متفق نہیں۔
فاتح عالم بنے کہ ممولے نہیں تھے، مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا۔ اختیار، پھیلائو،رسوخ، شہرت چار دانگ تھی۔فضابدر پیدا کی تو اللہ کی مددرہی ، غزوہ بدر،فتح قسطنطنیہ، بیت المقدس کی واگزاری ،ان گنت فتوحات کہ ہم کبھی بھی ممولے نہ تھے۔ بیت المقدس (یروشلم)کو اسرائیلی دارالحکومت جاننا سمجھنا، قصہ پارینہ !کہ1996 سے امریکہ سب کچھ قانون کا حصہ بنا چکا۔ نئی واردات اتنی کہ صدر ٹرمپ نے رسمی اعلان کیا۔صدور کو ہدایت تھی کہ ہر چھ ماہ بعد جانچ پڑتال کر کے عمل درآمدکی صورت نکالی جائے۔ ساری دنیا ، خصوصاً اُمت ِ مسلمہ کی قیادت، دانشوروں کی توپوں کا رُخ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف غیر ضروری اس لئے کہ واردات ضرورسرزد ، تخلیق ٹرمپ کی نہیں۔موافق حالات نے نفاذ ممکن بنانا تھا،آج سے زیادہ سازگارکبھی بھی نہ تھے۔امت مسلمہ کاخلفشار اور انتشار ساتویں آسمان کو چھو چکا۔
پہلی دفعہ بیت المقدس(یروشلم) مسلمانوں کے قبضہ میں کیسے آیا؟۔دنیا کا طاقتور ترین شخص، ایک خچرپر ہمراہ ملازم ، معمولی لباس زیب تن ایسے پہنچتا ہے کہ خدمت گزار اور مالک میں فرق ڈھونڈنا مشکل۔ 3سو سال سے بیت المقدس کے متولی SOPHRONIUS خاندان نے شہر کا دورہ کرایا۔ نماز چرچ میں ادا کرنے پر اصرار، اس بنا پر چرچ میں ادا نہ کی کہ بعد میں آنے والے مسلمان چرچوں کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔قبل ازیںخالد بن ولید اور عمر وبن العاص گردو نواح میں فتوحات کے جھنڈے گاڑچکے۔ گو ہر غزوہ، ہر جنگ کی شروعات کی وجہ دفاع رہا،روز اول سے اسلام کے بڑھنے پھیلنے کا ذریعہ بنا۔ پھیلائو اور اثر و رسوخ نے فارس سے لیکر کر بارطینی رومیوں تک، اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے جب بھی چڑھائی کی شکست مقدر بنی،علاقہ حوالے کرنا پڑا۔پرامن طریقے سےبیت المقدس کی حوالگی کی رسم ادا ہوئی۔ اللہ کی مدد یقیناََ شاملِ حال رہی مگر ممولے نہ تھے۔تکرار، صدر ٹرمپ کے سرسہرا اس لئے سجا کہ خلفشار کی کئی دہائیوں ، صدیوں پرانی محنت ثمر آور ہو چکی تھی۔ علاوہ ازیںصدر ٹرمپ نے وہ سب کچھ اندھا دھند کر ڈالا، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت کہ سوچ بچار بالائے طاق رکھنا تھا۔ دوسری طرف صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی، معزولی کی تلوارٹرمپ پرسر کے عین وسط اوپر معلق ہے۔سابقہ مشیر قومی سلامتی مائیک فلین کے اعترافی بیان کے بعدصدر ٹرمپ پر غداری کے الزام پر مواخذہ درج ہے۔گارنٹی کہ مواخذہ سے ہر گز نہیں بچ پائے گا۔ آنے والے دنوں میں عالمی جنگ کا آغاز وانجام بھی یہی۔ اصل ایجنڈا حزب اللہ پر حملہ ہے ، عالمی جنگ کا رسمی طبلِ جنگ بھی۔ چند ماہ پہلے صدر ٹرمپ ریاض سربراہی کانفرنس میں شریک رہا،چشم دید گواہ ہوں،عرب سربراہان کو سرِ تسلیم خم پایا۔ پوری کانفرنس کا لب لباب ایران کے خلاف اتحاد و یگانگت کا عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کی تقریر اس لئے روک دی گئی کہ ایران کے لئے مذمتی الفا ظ موجود نہ تھے۔چنانچہ اچنبھا نہیں کہ اصل منزل ایران ہی ہے۔ ایران کا قلع قمع کرنا ہے۔ کئی سنی حکومتوں اور ریاستوں کے خاتمہ بالخیر اور دوسری کئی میں افراتفری انارکی کا بازار گرم رکھتے، پہلو میں بٹھاتے،آگے جانا ہے۔ وطن عزیز میںبھی ذرا جھانکتے جائیں ، فکر و فاقہ اتنا کہ ریاست کی جن کو ضرورت، وہی بیخ کنی میں جتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی چغادری، سکہ بند صحافی بتانے سے قاصر، بات کرتے لڑکھڑاہٹ کا شکار کہ وطن عزیز پر آسیب کا سایہ کیوں اور کیسے؟۔ سچ لبوں سے کوسوں دور جبکہ میڈیا اتنا پابندسلاسل کبھی نہ تھا۔ وطن کی اینٹ سے اینٹ بجاتے بخیے ادھڑنے کے جتنے جتن آج دیکھنے کو، ایسی افراتفری ماضی میں کبھی نہ ملی۔ مسلم دنیا میں جتنا شور و غوغا، احتجاج تقاریر، بیانات ماسوائے ترکی اور ایران سب منافقت ، فریب کاری، دھوکا دہی پر مبنی ہے۔اصل موضوع ،امریکہ کو یقین دہانی منسلکـ‘‘ ہم بھرپور احتجاج ضرورکریں گے ،کارستانیوں میں رکاوٹ نہیں آئے گی‘‘۔سب عرب ممالک نے اسرائیل کے شانہ بشانہ نظر آنا ہے۔سعودی قیادت میں اسلامی اتحاد تو بنا ہی ایران کے لئے، فائدہ اٹھاناضروری ہے۔کھلاراز ، سعودی عرب، مصر، اردن، خلیجی ممالک امریکی اسرائیلی بندھن میں بندھ چکے۔ یا اللہ !چار سو غدار حکمرانوں کے نرغے میںتیری مخلوق گھر چکی، بچا لے(آمین)۔
اسرائیل کی قیادت سب کچھ کیک کے اوپر کریم کی تہہ سمجھیں۔ اصل مواد نیچے34ملکی فوجی اتحاد ، سعودی عرب کا قطر سے قطع تعلق، سعودی عرب اندر اقتدار کی جنگ،شاہی خاندان کو حوالہ زندان رکھنا، محمد بن سلیمان کو مملکت کا عملاً فرمانروا بنانا، سعودی عرب میں اسلامی اور سعودی روایات اقدار اصولوں پر یلغار، سنی ممالک لیبیا، عراق، مصر،شام، افغانستان، پاکستان میں خانہ جنگی، افراتفری، قتل و غارت ذریعے ریاستوں کی تباہی، بنیادوں کو کھوکھلا کر نا، تہس نہس رکھنا، پچھلے سالوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔آنے والے دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کودرخشاں رکھنا ،مطمح نظر ہے۔ بطلِ حریت صدر اردوان ڈنکے کی چوٹ پر رکاوٹ بن چکا۔ صدر اردوان کے بارے میں امریکی اسرائیلی عزائم، ڈھکے چھپے نہیں، پہلے ہلے میں قتل کروانے کی کوشش ہوگی کہ پرانا طریقہ واردات ہے۔جو ہونے کو، میرے ایمان و اعتقاد کی حوصلہ افزائی کہ حدیث مبارکہ بالصراحت، ہرمعمولی تفصیل کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ ARMAGEDDON یعنی کہ ’’آخری معرکہ حق و باطل‘‘ تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی یکساں مانتے ہیں۔ بائبل اور توریت میں جو کچھ قرآن اور احادیث مبارکہ سے مطابقت رکھے، ایمان کا حصہ ہے۔ احادیث مبارکہ، مقدس انجیل اورتوریت 20صدیوں سے آج کے دن کی نشاندہی راسخ کر چکی ہیں۔ یہودی پروٹوکول کا لب لباب بھی یہی، گریٹر اسرائیل کا قیام۔ مطلب مدینہ المنورہ تک اسرائیل کو پھیلنا پھیلاناہے۔ اللہ رحم کرے! شروعات، مسلمان بمقابلہ مسلمان میدان عمل میں، متحارب فریق امریکی اسلحہ، میزائل، بم ایک دوسرے کے خلاف فراوانی سے استعمال کریں گے۔ باہمی تصادم نے اسرائیل کا کام آسان کرنا ہے۔ دوسرے مرحلے میں مسجد اقصیٰ کو زمین بوس کرنا یہودی عقیدہ کا حصہ، احادیث مبارکہ کے عین مطابق بھی۔ مشرق سے مسلمان جتھے نمودار ہوں گے اور مقابلہ حق و باطل کو انجام تک پہنچائیں گے، تب تک حضرت عیسیٰ ؑ کے ظہور کی نوید بھی ہے۔ بائبل کے مطابق (BOOK OF REVELATION 16:14) حضرت عیسیٰ ؑ کے ظہور سے پہلے معرکہ حق و باطل جنگ کا ٓآغاز ہو چکا ہو گا جو کہ آخری معرکہ ہو گا‘‘۔ یہودی توریت(OLD TESTAMENT) میںکم و بیش یہی پیشین گوئی درج ہے کہ ’’خداوند ایسے معرکے کی کمانڈ خود کریں گے۔ بے شمار اقوام سے مقابلہ ہو گا۔ فتح کی صورت میں اسرائیل کی سرحدوں نے مدینہ تک پہنچنا ہے۔ مزید درج کہ مشرق سے آنے والی فوج مخالفین کو بچانے کی کوشش کرے گی‘‘۔ شاید یہی وجہ کہ نئے قدامت پرستوں نے سب سے پہلے پاکستان(نیوکلیئر پاور)، ایران، افغانستان کو ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑ رکھا کہ مشرق کو نیست و نابود کر کے ہی، جنگ جیتی جانی ہے۔1980سے ایران مشق ستم جبکہ2001سے پاکستان اور افغانستان پر قیامت بیت چکی۔ اس جنگ میں روس اور چین کا کودنا بنتا ہے۔ صدر پیوٹن کا حالیہ دورہ مصر، شام اور ترکی حالات کی نزاکت کا مرہون منت ہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ تل چکی، بالکل نہیں ٹلے گی، ہو کر رہے گی، فیصلہ کن۔ اللہ نے یقیناً ہمیں ’’پاکٹ حکمرانوں‘‘ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا، مدد آنی ہے۔ ابتدائی تباہی بربادی کے بعد ہی غیرت مند نمودار ہوں گے۔ شک نہیں کہ وہ وقت آن پہنچا، حدیث مبارکہ کی نشانیاں پوری ہوچکیں۔ حق و باطل کی اس لڑائی میں بالآخر مسیح علیہ السلام نے مسلمانوں کی قیادت کرنی ہے۔ یہودی اور عیسائی ماننے سے انکاری ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کا کوئی قصور نہیں، ایسا موقع کوئی امریکی صدر ضائع نہ کرتا کہ 1996سے طے تھا۔ مسلمان حکمرانوں کا احتجاج، اپنے لوگوں کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ سب سے پہلے ایسوں حکمرانوں نے ایندھن بننا ہے، کام آنا ہے۔ تسلی اتنی کہ پاکٹ حکمران اور غدار اپنے انجام کے قریب، یقیناً عبرتناک انجام مقدر بنے گا۔ اللہ کے دین کے لئے، اللہ کے مددگار ضرور نمودار ہوں گے لیکن غداروں کی ہلاکت کے بعد۔

تازہ ترین