• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف دو غیرمسلموں سے ہاتھ ملانے والا ملا عمر!.....حکایتیں نہ شکایتیں…اسد مفتی (ایمسٹرڈیم)

اسامہ بن لادن کے بعد دنیا کے انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشت گردوں یا جنگجوؤں یا انتہا پسندوں میں شمار کئے جانے والے ملا محمد عمر کی کیا موت واقع ہوچکی ہے؟ یہ سوال گذشتہ ہفتے سے یورپ کے میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ افغان ٹی وی ”تولونیوز“ نے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ملا عمر کو کوئٹہ سے شمالی وزیرستان لے جاتے ہوئے آئی ایس آئی نے ہلاک کردیا ہے جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے وہ مطابق نیٹو کے فضائی حملے میں مارا گیا ہے۔ میرے نیٹو کے ہیڈکوارٹر برسلز میں فون کرنے پر نیٹو کے ترجمان نے بتایا کہ ”ہم نے میڈیا میں یہ خبر سنی ہے اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں فی الحال ہم اس رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں نہ تردید، آپ براہ کرم انتظار کیجئے“۔ طالبان کے روحانی پیشوا یا امیرالمومنین ملا محمد عمر کا پورا نام غلام محمد عمر ہے ،کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی میں اس نے صرف دو غیرمسلموں سے ہاتھ ملایا ہے لیکن اگر وہ آج بھی اپنے اس عہد پر قائم رہتا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دیتا ہے تو اسے بہت سے غیرمسلموں سے ملنا پڑے گا اور بہت سوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ ”طالبان“ نامی کتاب کے پاکستانی مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ ملا عمر نے اپنی زندگی کی شروعات ایک عام پشتون ملا اور سکول ماسٹر سے کی تھی۔ افغانستان کو جنگی سرداروں سے نجات دلانا چاہتا تھا، سیاست اور دنیا داری و دنیاوی معاملات کے بارے میں اس کے خیالات میں تبدیلی اسامہ بن لادن سے ملاقات کے بعد آئی۔ نومبر 1994ء میں وہ اتنا طاقتور ہوچکا تھا کہ طالبان کے ہمراہ اس نے قندھار پر قبضہ کرلیا اور اس کے ایک سال کے بعد تخت کابل اس کے پاؤں کے نیچے تھا۔ اس نے آغاز ہی میں قندھار کی ایک خانقاہ میں رکھا ہوا حضرت محمدﷺ کا ایک مقدس چوغا خانقاہ سے برآمد کرکے عوام کی زیارت کیلئے رکھ دیا، یہ چوغا وہاں لگ بھگ 70 سال سے عمارت کی ایک بلند ترین جگہ پر ریشمی کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا ہوا تھا اس پر ملاؤں اور عام لوگوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور اس کی تکریم شروع کردی۔ ملا عمر قندھار کے نزدیک ایک گاؤں ”نودے“ میں 1959ء میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوا تھا۔ وہ قندھار جسے لگ بھگ تین ہزار سال قبل یونانی سکندر اعظم نے تعمیر کرایا تھا،اس کا بچپن اسی قندھار میں گزرا جوانی ہی میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگری، اس نے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ قائم کیا اور ساتھ ہی گاؤں کا ملا بن گیا۔ پھر 1989ء سے لیکر 1992 تک وہ ”مجاہدین“ میں شامل ہوکر سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف لڑتا رہا۔ اس دوران وہ چار مرتبہ زخمی ہوا اور اس کی داہنی آنکھ ضائع ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ افغانستان پر امریکہ کے حملے سے پہلے جو پاکستانی جرنیل افغانستان میں ملا عمر کو ”سمجھانے بجھانے“ کیلئے بھیجے گئے وہ جب ملا عمر کی خدمت میں ”حاضر“ ہوئے تو ملا عمر نے کہا، ”ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی جنگ نہیں ہاری، ہمیں قیدی بنانے والا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگر تم امریکہ سے اتنے ہی خوف زدہ ہو تو ایٹم بم کس لئے بنایا تھا؟ پاکستانیو! میری بات غور سے سنو، ہم تمہاری بھی حفاظت کرنے کیلئے تیار ہیں…!“ ملا عمر نے سخت شرعی قوانین اور افغان قبائلی روایتوں کو گڈمڈ کرکے افغانستان پر دنیا کی سب سے سخت گیر ”اسلامی“ حکومت قائم کرنے کے اپنے مقاصد میں کسی کی کوئی مداخلت برداشت نہیں کی تھی۔
آخر میں یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ جن دو غیرمسلموں سے اس نے ملاقات کی اور ان سے ہاتھ ملایا ان میں سے ایک تو افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے تھے جن سے ان کی ملاقات اکتوبر 1998ء میں ہوئی تھی اور دوسرے پاکستان میں چین کے سفیر لوشولین جن سے وہ اپنے اقتدار کے آخر میں ملے تھے۔
تازہ ترین