• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی صورتحال کا سائنسی تجزیہ... الطاف حسین…بانی و قائد ایم کیو ایم

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ آج پاکستان اور اس کے ادارے ناسور (Gangrene)اور ایڈز (HIV)جیسے موذی اور جان لیوا امراض سے متاثر ہو چکے ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ قومی اداروں کو ان امراض سے محفوظ کرنے اور انہیں مزید تباہی سے بچانے کے لئے نہ صرف کڑوا گھونٹ پیا جائے بلکہ بے رحمانہ ایکشن بھی کیا جائے ۔
ناسور (Gangrene)اور ایڈز کا مرض جسم میں کس طرح پھیلتا ہے اور انسانی جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اس کی مختصر طبی تفصیل سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
ناسور (Gangrene): یہ مرض خشک اور ناسور کی صورت میں جسم کے کسی بھی حصے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ انسانی جسم کے خلیوں کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے ، خلیوں کو آکسیجن ملنا بند ہو جاتی ہے اور خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن ابتدا میں اگر اس مرض کی تشخیص ہوجائے تو پھر ادویات کے ذریعے اس مرض کا علاج ممکن ہے۔ اگر اس مرض سے متاثرہ حصے میں انفیکشن اور زخموں کی اچھی طرح نگہداشت نہ کی جائے تو زہریلا مادہ جسم کے دیگر اعضاء کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اگر راست اقدام نہ کیا گیا تو یہ مرض جسم کے صحت مند خلیوں کے لئے بھی جان لیوا ہو جاتا ہے۔
ناسور کے زہریلے مادے سے پورے جسم یا جسم کے دیگر اعضاء کو محفوظ بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس مرض سے متاثرہ حصے کو جسم سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جائے تاکہ یہ موذی مرض دوسرے انسانوں اور جسم کے دیگر حصوں کو متاثر نہ کر سکے۔
ایڈز (AIDS): لفظ Acute Immune Deficiency Syndrome(AIDS) کا مخفف ہے اور یہ مہلک بیماری HIVوائرس سے پیدا ہوتی ہے ۔ Human Immuno Deficiency Virus (HIV) کا مخفف ہے ۔
انسانی جسم میں قدرتی حفاظتی نظام موجود ہوتا ہے جسے مدافعتی نظام یا Immune Systemکہتے ہیں ۔ ایڈز ایسی مہلک بیماری ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتی ہے ۔ اس مرض کی بنیادی وجہ جسم میں HIVوائرس کا داخل ہونا ہے ۔ یہ وائرس جسم میں داخل ہو کر نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ اپنی تعداد میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔ جب ایڈز کا وائرس ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ براہِ راست جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے اور اسے اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ متحرک مدافعتی نظام کی عدم موجودگی سے جسم چھوٹی چھوٹی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مدافعتی نظام کی عدم موجودگی سے کسی بھی انسانی جسم کی بقاء ممکن نہیں ہوتی ۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے قومی ادارے ناسور (Gangrene) اور ایڈز کے امراض سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن پورے جسم کو بچانے کے لئے ناسور سے متاثرہ حصہ کو جسم سے الگ نہیں کیا جا رہا ہے جس کے باعث یہ مرض جسم کے باقی حصوں میں بھی پھیل رہا ہے ۔ دوسری جانب ہمارے قومی اداروں کا مدافعتی نظام ایڈز کے مرض کے باعث اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بیماری حملہ آور ہو رہی ہے۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قومی اداروں میں ناسور کا سبب بننے والے ہمارے جسم کا حصہ ہیں، گمراہ ہیں اور انہیں قائل کر کے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے تو وہ لوگ غلط ہیں ۔ ایسے لوگ اس امر سے لاعلم ہیں کہ قومی اداروں کو مکمل تباہی سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ناسور سے متاثرہ حصہ کو جسم سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ اس وقت قومی اداروں کا60% حصہ ناسور کے مرض کا شکار ہے اگر 60% حصہ کو جسم سے الگ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ 40%حصہ بھی اس مرض کی لپیٹ میں آجائے گا ۔ اگر ناسور کا شکار پیر جسم سے کاٹ دیا جائے تو ہم لنگڑا کر چل سکتے ہیں مگر ہمارا جسم سلامت رہے گا۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے ۔ اب قومی اداروں کے سربراہان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پورے ادارے کو ناسور سے متاثرہ چند حصوں سے بچانا چاہتے ہیں یا پورے ادارے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چند دہشت گردوں نے پاکستان کے قومی دفاعی نظام کو چیلنج کیا اور کراچی میں واقع مہران نیول بیس میں داخل ہو کر اس ادارے کی حفاظت پر مامور 1100سپاہیوں کو للکارا لیکن مدافعتی نظام کی کمزوری کے باعث یہ 1100 سپاہی اس قابل بھی نہیں تھے کہ فوری طور پر ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ اگر ہمارا قومی دفاعی نظام مٹھی بھر دہشت گردوں کو نہیں روک سکا تو وہ ملک و قوم کو کسی غیر ملکی مداخلت سے کیونکر محفوظ رکھ سکتا ہے؟
وقت کا تقاضا ہے کہ قومی اداروں کو ناسور اور ایڈز جیسے امراض سے بچانے کے لئے طاقتور ادویات سے علاج کیا جائے جس طرح ایران میں کیا گیا ہے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں رہیں اور یہ امراض بڑھتے بڑھتے پورے جسم کی موت کا سبب بن جائیں۔ اگر جسم کے 60%حصے کو قربان کر کے 40% حصے کو بچایا جا سکتا ہے تو بلا تاخیر متاثرہ حصے کو جسم سے علیحدہ کر دیا جائے اور اس سلسلے میں اگر بے رحمانہ ایکشن لینا بھی پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے ۔
تازہ ترین