• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


موصوف نے کیک ٹیبل پر رکھا اور لگے کیک کی تعریفیں کرنے کہ کیک کس طرح انہوںنے خاص طورپرآرڈرپرمیرے لئے بنوایا ہے۔ یہ صاحب جب بھی میرے پاس آتے ہیں توتحفے کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتے ہیں ،بہت منع کرنے کے باوجود زبردستی کے یہ دوست یہ کہہ کر چپ کروادیتے ہیں کہ تحفہ دینا سنت نبویؐ ہے اور پھر جو بھی تحفہ لاتے ہیں اس کی افادیت ، اس کی بناوٹ اور اس کو بنانے والے کی ایسی تاریخ بیان کرتے ہیں کہ بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ واقعی بڑا نادر تحفہ لائے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے آپ کو ایک ایسا کام کروانے کو کہیں گے کہ دل چاہتا ہے کہ یہی تحفہ ان کے منہ پر دے ماروں،لیکن مروت کے مارے خاموش رہنا پڑتا ہے، حسب سابق آج بھی جب کیک لائے تو اس کے اجزائے ترکیبی سے لیکر اس کی پیکنگ تک اور اس کو بنانے والے کاری گر سے لیکر اس کے ذائقے تک کی تعریف کرنے لگے ،اور میں نے یہ سب سنی ان سنی کرتے ہوئے ان سے پوچھا کے کہ اعوان صاحب حکم کریں کہ میرے لئے کیا حکم ہے اور میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں اس سے پہلے کہ میں ان کی لمبی چوڑی تمہید سے مزین ان کا مدعا بیان کروں تو آپ کو یہ بتا دوں کہ پرانے محلے دار ہیں پہلے جوڈو کراٹے کا شوق رکھتے تھے بروسلی سے لیکر جیکی چن تک کی تمام فلمیں دیکھ رکھی تھیں اور جوڈو کراٹے کا ماہربن کر ان جیسا بننا چاہتے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ جوڈو کراٹے سیکھ کر یہ اپنی ایک اکیڈمی بنانا چاہتے ہیں جس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جوڈو کراٹے کی تربیت دینگے ،کیونکہ سیلف ڈیفنس کیلئے جوڈو کراٹے سے بہتر کوئی دوسری چیز نہیں اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوڈو کراٹے سے بہتر کوئی دوسرا کاروبار بھی نہیں ہے، مجھے ہر وقت کہتے کہ دو چار تعلیمی اداروں میں میری سفارش کردیں تاکہ میں ان کے بچوں سے ایک معقول فیس لیکر ان کے بچوں کو جوڈو کراٹے کی تربیت دوں اور میں جواب میں ان سے کہتا کہ پہلے خود اچھی طرح تربیت یافتہ ہوجائیں تو میرے لئے سفارش کرنا آسان ہوگا جس پر وہ جوش سے کھڑے ہوجاتے اور ایک دو جوڈو کراٹے کے ایکشن بناتے اور منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال کر مجھے مرعوب کرتے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے لیکن میری خوش قسمتی کہ ایک روز خود ہی کہنے لگے جوڈو کراٹے کو دفع کریں مجھے راولپنڈی یا اسلام آباد کی کسی کرکٹ ٹیم میںکروادیں کیونکہ کرکٹ میں بڑا پیسہ ہے اور مجھ جیسا آل راؤنڈرتو ان جڑواں شہروں میں کوئی دوسرا مل ہی نہیں سکتا اور مجھے ساتھ لائے ہوئے کٹ بیگ سے کرکٹ کا سارا سامان نکال کر ایک ایک چیز دکھانے لگے اور پھر کسی جادوگر کی طرح اپنے بیگ میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولنے لگے جیسے ابھی پھڑپھڑاتا کبوتر نکال کر تالیاں بجانے کی فرمائش کردینگے اور پھر میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک بوسیدہ سا کرکٹ کا بال تھامجھے کچھ پوچھنے کا موقع دیئے بغیر کہنے لگے آپ کو معلوم ہے یہ کونسی بال ہے میں نے نفی میں سر ہلا دیا تو کہنے لگے کہ یہ وہ بال ہے جس پر شارجہ میں جاوید میانداد نے بھا ر تی با لرکو اوور کی آخری گیند پر چھکا لگایا تھا ۔میں نے مزید بحث سے بچنے کیلئے تسلیم کرلیا ، موصوف کہنے لگے کہ میں نے یہ بال اپنے بیگ میں برکت کیلئے رکھ چھو ڑ ی ہے ، بس آپ مجھے ایک چانس لے دیں پھر دیکھئے آپ کا بھائی کیسے چوکے چھکے مارتا ہے میں نے کوشش کرنے کا وعدہ کرکے جان چھڑائی ۔وہ دن اور آج ،بڑے عرصے بعد شکل دکھائی، کیک کی تعریف کرچکے تھے کہنے لگے آپ کا بھائی ایک معروف صحافی بن چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی چینل یا اخبار جوائن کرلیا ہے ۔منہ بسورتے ہوئے بولے نہ جی نہ، اپنا ذاتی اخبار نکالتا ہوں۔ ذاتی اخبار ،میں نے حیرانی سے پوچھا ؟اس پر تو بہت خرچا آتا ہے اور وہ کرکٹ کا شوق کہاں گیا میں نے اگلا سوال کردیا۔او دفع کریںجی مجھے کلب نے بارہویں کھلاڑی کی پکی پوزیشن دیدی تھی مجھے تو اب سمجھ آئی ہے کہ صحافت بہت بڑا کام ہے، خر چہ نکا لنا تو بہت آ سا ن ہے۔ آ پ کے بھا ئی نے پریس کانفرنس میں بڑے بڑے وزیروں کو چپ کرادی ہے آپ نے دیکھا نہیں ہر پریس کانفرنس میں بیٹھا ہوتا ہوں یا وزیر کے پیچھے کھڑا ہوتا ہوں، ہاں ہاں دیکھا ہے اب میرے لئے کیا حکم ہے۔ بو لے پیارے بھائی صحافت کے ساتھ ساتھ ایک صحافت سے بھی بڑا کام کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے پوچھا وہ کیا ؟ دو بڑی سیا سی پا ر ٹیوں کے نا م لے کر بو لے، الیکشن آنے والے ہیں ان دو پارٹیوں میں سے کسی ایک کا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لے دیں میں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ میری ایسی واقفیت تو نہیں لیکن الیکشن کیلئے بڑے وسائل درکار ہوتے ہیں، موصوف نے کچھ نام لیکر مثالیں دیں کہ یہ بھی ایسے ہی سیاستدان بنے ہیں۔ میر ے پا س تو اب اپنا اخبا ر بھی ہے، بس آپ مجھے ٹکٹ لے دیں انوسٹمنٹ کرنے کیلئے میرے پاس دو چار پارٹیاں ہیںبس ان دومیں سے کسی ایک پارٹی کے ٹکٹ کا سوال ہے ؟

تازہ ترین