• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی غلطیوں سے سیکھنے والی واحد لیڈر بینظیر بھٹو...گریبان …منوبھائی

ایک روایت ہے اور دروغ برگردن راوی جنرل ضیاء الحق نے اپنے ملک کے اقتدار پر قبضہ ٴ غاصبانہ کے بعد آیات ِ قرآنی کی تلاوت کے ساتھ قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نوے دنوں کے اندر عام انتخابات کرواکے اقتدار سول حکمرانوں کے حوالے کر دیں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر انہوں نے زیرلب یہ بھی کہا تھا کہ Over my dead body ۔ ان کی یہ زیرلب کسی کو سنائی نہیں دی تھی مگر قدرت کا ملہ نے سن لی تھی چنانچہ 18اگست 1988 کو ایک فضائی حادثہ میں ضیاء الحق کی وفات کے پور ے نوے دنوں بعد پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوگئے تھے اور 1953 میں آج کے دن 21جون کوپیدا ہونے والی 35 سالہ محترمہ بینظیر بھٹو نے عالم اسلام کی پہلی جمہوری منتخب خاتون وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔
بلاشبہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کو بھی قومی اورشاید عالمی تاریخ کا ایک منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک ریاست کے وزیراعظم سرشاہنواز بھٹو کی بہو، پاکستان کے دومرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ اور اپنے ملک کی دو مرتبہ منتخب ہونے والی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی ماں ہیں اور اپنے شوہر نامدارکی پھانسی اور دوبیٹوں شاہنواز اور مرتضیٰ کی شہادت کے پے در پے صدمات سے اپنی یادداشت کھوچکی ہیں چنانچہ نہیں جانتی ہوں گی کہ ان کی تاریخ ساز بیٹی بینظیر بھٹو کو بھی شہیدکردیا گیا ہے۔
تاریخ کے صفحات سے شبہ ہوتا ہے کہ بہت ساانسانی خون ضائع بھی گیا ہوگا مگرسیاست کے میدان میں لوگوں کی بہتری اوربہبود کے لئے دی جانے والی قربانیاں کبھی اور کسی حالت میں بھی ضائع نہیں جاتیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھٹو کی پھانسی سے ان کی پارٹی کوموت کے گھاٹ اتارا نہیں جاسکا اوربینظیر بھٹو کی شہادت سے ان کی پارٹی کا ووٹ بنک پہلے سے زیادہ ہو گیاہے۔ چنانچہ پاکستان پیپلزپارٹی اقتدارسے الگ کی جاسکتی ہے مگرسیاست سے باہر نہیں کی جاسکتی۔
برادرم سہیل وڑائچ نے اپنی کتاب ”قاتل کون؟“ میں مختلف لوگوں کے محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں تاثرات معلوم کرنے کے لئے انٹرویوز شامل کئے ہیں۔ ایک دلچسپ انٹرویو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر محترمہ عاصمہ جہانگیر کا ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ ”بی بی ایک سچی انسان دوست شخصیت تھیں۔ 1986 میں جب وہ جلاوطنی سے پاکستان آئیں توکئی معاملات میں وہ سادہ تھیں لیکن بعد میں بالغ النظر ہوگئیں۔ پاکستانی سیاست کے میدان میں بی بی نے سب سے زیادہ دھکے کھائے۔ اب وہ ایسی یاستدان بن گئی تھیں جنہیں ہرگلی کوچے کی سیاست کا بھی علم تھا۔ لوگوں کے دلوں کے حال کا بھی پتہ تھا۔ ان کے اندر برداشت اور تحمل تھا۔ وہ لوگ جو نیچ حرکتیں کرتے رہے بی بی کی الٹی سیدھی تصویریں چھاپتے رہتے تھے بی بی نے انہیں بھی معاف کردیا تھا۔“
”بینظیر نے سیاست میں بہت سی تبدیلیوں کی کوشش کی۔ وہ دل سے لبرل تھیں۔ انہوں نے پاکستان میں لبرل ازم کے فروغ کے لئے بھرپور جدوجہدکی۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔ بچوں سے ان کا ہمیشہ شقفت کا رویہ رہا۔ اقلیتوں کے زیادہ سے زیادہ حقوق کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہیں۔ وہ عوام میں جاکر خوش ہوتی تھیں۔ انہیں حقیقی طور پرعوامی لیڈر کہا جاسکتاہے۔ ہرکسی نے منع کیاکہ پشاورجلسہ نہ کریں لیکن ان کی بہادری کو سلام کہ انہوں نے وہاں جاکر جلسہ کیا۔ بینظیر کی موت نے اسے اور عظیم بنا دیا۔ وہ اس دنیا سے جلدی چلی گئیں اگر زندہ رہتیں تو پاکستان کوبہت کچھ دے سکتی تھیں۔ بینظیر بھٹو کا وژن بہت ہی آئیڈیل تھا لیکن وہ اس وژن کے مطابق عمل نہیں کرسکیں اس کی وجہ اچھی ٹیم کانہ ہونا، نظام کی خرابیاں اور شائد ان کا اپنا عدم تحفظ بھی تھا۔
میرے ساتھ بی بی کے تعلقات بہت ہی باوقار اور دوستانہ رہے۔ 1988میں انہوں نے مجھے پارلیمینٹ میں مخصوص نشست پر ٹکٹ دینے کی پیشکش کی جس پر میں نے انہیں کہا کہ ہیومن رائٹس کی کمٹمنٹ کی وجہ سے میں سیاست میں نہیں آنا چاہتی بعد ازاں انہوں نے مجھے جسٹس بنانے کی پیشکش کی۔ دوتین مرتبہ اصرار کرتی رہیں مگر میں نے انکار کردیا تو ناراض ہوگئیں۔ جب مجھ پرقاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے فون کیا کہ آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے پھر چیف سیکرٹری کو خصوصی ہدایات جاری کیں کہ میری سکیورٹی کاخیال رکھا جائے۔
عاصمہ جہانگیر نے محترمہ بینظیر بھٹو کی دلیری، خوشگواری اور گپ شپ کی پسندیدگی اور کام سے محبت کے علاوہ ان کی ایک منفرد خوبی کا ذکر کیا ہے۔ بتاتی ہیں کہ ”بی بی نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی غلطیاں کیں جب بھی کوئی اس طرح کی بات ہوتی تھی تو میں اختلاف کرتی تھی لیکن بی بی جب کوئی غلطی کرتی تھیں اور ان کو اس کااحساس ہوتا تھا کہ غلطی ہوگئی ہے تو پھران کی آنکھ میں شرمندگی ہوتی تھی۔ بلوچستان کے بارے میں بی بی نے غلط پالیسی اپنائی۔ ایک بار لندن میں قیام کے دوران افغانستان پربات ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنا نہیں چاہئے تھا۔ بی بی نے اپنی غلطی مانی کہ طالبان کو تسلیم کرنا غلط تھا۔ بی بی واحد لیڈر تھیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتی تھیں۔ ہم شاید ہی ان جیسا کوئی لیڈر حاصل کرسکیں۔“
تازہ ترین