• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جو پچھلے ہفتہ کوئٹہ میں چرچ پرحملہ ہوا تھا، اس حملے میں حملہ آوروں کا تعلق میرے قبیلے اور میرے عقیدے سے تھا۔ چونک گئے نا؟ آپ کا چونکنا ضروری تھا۔ آج تک آپ سمجھ رہے تھے کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو آپ کا ہے۔ لہٰذا آپ کا چونکنا لازمی تھا۔ میرے عقیدے کا آپ کے عقیدے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ میرا عقیدہ کیا ہے؟ میرا عقیدہ کونسا ہے؟ میرا عقیدہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں آپ کو کیوں بتائوں کہ میرا عقیدہ کیا ہے؟ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ بنیادی حقوق کی رو سے آپ مجھ سے نہیں پوچھ سکتے کہ میرا عقیدہ کیا ہے۔ میرا عقیدہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں اپنے ذاتی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ بہتر ہے کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں، اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ مجھ سے مت پوچھیں کہ میرا عقیدہ کیا ہے۔ میں نے کبھی آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کا عقیدہ کیاہے؟ نہیں نا؟ تو پھر آپ بھی مجھ سے مت پوچھیں کہ میرا عقیدہ کیا ہے۔ میرا اتنا بتادینا کافی نہیں ہے کہ کوئٹہ میں چرچ پر حملہ کرنے والے حملہ آوروں کا تعلق میرے عقیدے سے تھا! اور کیا جاننا چاہتے ہیں آپ؟
پہلے پہل میں بھی بڑے جوش اور جنون سے یہی کام کرتا تھا۔ میرے عقیدے سے مماثلت نہ رکھنے والوں کو تباہ، برباد اور نیست و نابود کردیتا تھا۔ میں بارود سے بھرا ہوا جیکٹ پہن کر بدبختوں پر حملہ آور نہیں ہوتا تھا۔ میں نوجوانوں کو بلکہ لڑکوں کو بارود اور بموں سے لدا ہوا جیکٹ پہن کر، میرے عقیدے کے برعکس عقیدہ رکھنے والوں پر حملہ کرنے کی تربیت دیتا تھا۔ نوخیز لڑکوں کو بھرے بازار، تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں، پلوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ایئرپورٹوں کو خودکش حملوں سے ناس کرنے کے گُر سکھاتا تھا۔ خودکش حملوں کے بعد روڈ، راستے، عمارتیں، کاریڈور خون میں لت پت ہوجاتے تھے۔ جسموں کے چیتھڑے ہوجاتے تھے اور کوسوں دور جاگرتے تھے۔ اعضا بکھر جاتے تھے۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر ہوجاتی تھیں۔ اس طرح کے دلدوز مناظر دیکھ کر کبھی کبھی تو میرے اپنے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور میں کانپ جاتا تھا۔ خاص طور پر جب میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو مائوں کی لاش سے چمٹ کر روتے ہوئے، بلکتے ہوئے دیکھتا تھا میں منہ پھیر کر آنکھیں بند کرلیتا تھا۔ مگر میں ذہنی طور پر قائل ہوچکا تھا کہ عظیم تر مقاصد کے لئے چھوٹے چھوٹے واقعات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ایک لمبے عرصے تک میں نوجوان لڑکوں کو خودکش حملہ کرنے کی تربیت دیتا رہا۔ اعضا کو اڑتا ہوا دیکھتا رہا۔ خون کی ندیاں بہتی ہوئی دیکھتا رہا۔ زندگی کو جسموں سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر اچانک میں نے مرنے مارنے کے کھیل سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ کیا اچانک میرا مردہ ضمیر پھر سے زندہ ہوگیا تھا؟ نہیں۔ ایسا نہیں تھا۔ خون کی ندیاں بہانے کے باوجود خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے تھے۔ بلکہ الٹے نتائج رونما ہورہے تھے۔ خودکش حملے کے بعد مرنے اور زخمی ہونے والوں کے لئے ہمدردی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ دنیا بھر کے کونے کونے سے اُن کے لئے کبھی نہ تھمنے والی دعائوں کا سلسلہ چل پڑتا تھا۔ ہمارے لئے نفرتوں کا سیلاب اُمڈ آتا تھا۔ مذمتوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ برعکس عقیدہ رکھنے والوں کا ہم بھرپور جانی اور مالی نقصان کرتے تھے، مگر دنیا بھر کی توجہ اور ہمدردی ان کو اخلاقی فتح سے ہمکنار کردیتی تھی۔ ہمیں پھٹکار اور دھتکار کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کبھی ایک ایسا خودکش حملہ کیا تھا جس کے حق میں دنیا کے کسی بھولے بسرے کونے سے حمایت کی آواز آئی ہو۔
غیر طبعی موت انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ بیماری میں مبتلا کسی شخص کی موت واقع ہوجائے تو اخبار والے، ٹیلی وژن والے، ریڈیو والے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ اگر کسی کو گولی لگ جائے، یا موٹرسائیکل چلاتے ہوئے پتنگ کی ڈور سے کسی کی گردن کٹ جائے اور موت واقع ہوجائے تو فی الفور اخبار والے، ریڈیو والے، ٹیلی وژن والے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور ایک سنسنی خیز خبر کے لئےبھرپور مواد جمع کرلیتے ہیں۔ خودکش حملوں میں مرنے والوں کے لئے دنیا بھر سے خیرسگالی، خیرخواہی اور ہمدردی کے پیغامات آتے ہیں۔ امداد آتی ہے۔ اُن کو یکجہتی کی تاکید کی جاتی ہے۔ ایسے میں، میں نے اپنے سینئر ساتھیوں کے سامنے ایک کارآمد تجویز رکھی ہے۔ ہمارا مقصد، ہمارا مشن برعکس عقیدہ رکھنے والوں کی تباہی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ ہم برعکس عقیدہ رکھنے والوں کو اقتصادی موت ماریں گے۔ انہیں کنگال کردیں گے۔ انہیں بین القوامی بھکاری بنادیں گے۔ وہ امداد کے لئے کشکول ہاتھ میں تھامے دنیا بھر میں بھٹکتے پھریں گے۔ ہمدردی کے دو بول سننے کے لئے وہ ترستے رہیں گے۔ میری تجویز کے چیدہ چیدہ نکات آپ بھی سن لیجئے۔
ہم سے مختلف، برعکس عقیدہ رکھنے والوں کی اقتصادی ناکہ بندی کرنے کے لئے ان کی ایجاد کی ہوئی چیزیں خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ سفر کرنے کے لئےسائیکل، موٹرسائیکل، کاریں، ریل گاڑی، پانی کے جہاز اور ہوائی جہاز مت استعمال کریں۔ یہ ان کی ایجادات ہیں۔ رات ہونے کے بعد بجلی مت جلائیں۔ ریڈیو مت سنیں۔ ٹیلی وژن مت دیکھیں۔ یہ ان کی ایجادات ہیں۔ گرمی کے دنوں میں بجلی کے پنکھے اور ایئرکنڈیشن مت چلائیں۔ بجلی سے چلنے والے آلات مثلاً ایکس رے، ای سی جی، کارڈیو گرافی، ریڈیو گرافی، کیموتھیراپی وغیرہ کے استعمال سے گریز کریں۔ بخار کی حرارت معلوم کرنے کے لئے بھول کر بھی تھرمامیٹر کا استعمال نہ کریں۔ یہ ان کی ایجادات ہیں۔ لائوڈ اسپیکر اور مائیکروفون کا استعمال نہ کریں۔ موبائل فون کو بھول کر بھی ہاتھ مت لگائیں۔ اگر آپ کے پاس موبائل فون ہے تو اسے زمین پر دے ماریں اور لاتیں مار مار کر کچل دیں۔ ان کی بنائی ہوئی ادویات، خاص طور پر اینٹی بائیوٹک کبھی بھی استعمال نہ کریں چاہے آپ مر ہی کیوں نہ جائیں۔ انجیکشن یعنی سوئی تو بھولے سے بھی نہ لگوائیں۔ آپ ان باتوں پر عمل کرکے تو دیکھیں! برعکس عقیدہ رکھنے والوں کو آپ اقتصادی موت مار ڈالیں گے۔ خس کم جہاں پاک۔

تازہ ترین