• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو لگ یوں رہا ہے کہ ن لیگ 2018کے عام انتخابات جیت جائے گی اور اگر اس نے اپنا فیصلہ برقراررکھا تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ معزول وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں تو یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ شہبازشریف انکی جماعت کے وزیراعظم ہوں گے تاہم ابھی ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کو اس کی باقاعدہ منظوری دینی ہے اور یہ وہی فیصلہ کرے گی جو نوازشریف چاہئیں گے۔ یقیناً نوازشریف کے بعد شہبازشریف ہی ن لیگ کے سب سے موزوں رہنما ہیں جو اس عہدے کے حقدار ہیں۔ وزیراعظم چاہئے شاہد خاقان عباسی ہیں یا شہبازشریف ہوں گے ن لیگ کی اصل پاور نوازشریف ہی ہیں اور رہیں گے۔ ان کی نااہلی یا ممکنہ سزا جو کہ احتساب عدالت انہیں 3ریفرنسز میں دے سکتی ہے ان کی بھر پور سیاسی اتھارٹی پر کچھ اثر انداز نہیں ہوگی یہ 28جولائی کو ہونے والی ان کی ڈس کوالیفکیشن نے ثابت کردیا ہے۔ان کی مقبولیت وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سے بڑھی ہے۔ ن لیگ کے کچھ رہنمائوں خصوصاً سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا خیال ہے کہ شاید شہبازشریف کو بطور وزیراعظم جماعت کے سربراہ کی طرف سے فری ہینڈ نہیں ملے گا جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہو گی۔ آج ن لیگ جو کچھ بھی ہے نوازشریف کی مرہون منت ہے اور اس کی اگلے الیکشن میں جو بھی کارکردگی ہو گی انہی کی وجہ سے ہوگی لہٰذا اسکی سیاست پر ان کا بھر پور اثر اور رول ہونا ایک قدرتی عمل ہے اس پر تحفظات رکھنا بے معنی ہے۔ دونوں بھائیوں میں سب سے بڑا فرق جس کی ن لیگ یک آواز معترف ہے وہ یہ ہے کہ ووٹ بینک نوازشریف کا ہے اور شہبازشریف کی بطور وزیراعلیٰ کارکردگی بے مثال ہے۔ اس جماعت کا کوئی بھی رہنما اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ نوازشریف کی حمایت کے بغیر کسی بھی الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھا سکے۔ ن لیگ کی اگلے انتخابات میں کارکردگی کا بھی مکمل انحصار نوازشریف کی انتخابی مہم پر ہے۔ جس طرح کی وہ جارحانہ لائن لے رہے ہیں اس سے یقیناً ن لیگ کے ووٹ بینک میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اسکے علاوہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کو بھی عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ مہروں اور سازشی عناصر کو بھی ایکسپوز کر رہے ہیں۔ اسطرح کی کمپین کوئی بھی ن لیگی نہیں چلا سکتا۔ نوازشریف کی بیٹی مریم انکا بھر پور ہاتھ بڑھا رہی ہیں اور وہ بھی ایک بہت موثر کمپینرکے طور پر سامنے آچکی ہیں۔ ان کی باتوں میں بھی اپنے والد والی ہی ’’کڑک‘‘اور جارہانہ پن ہے جبکہ باقی بہت سارے ن لیگی ٹھنڈا ٹھنڈا رہنے کا سوچ رہے ہیں اور تلقین بھی کر رہے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں نتائج کیا آتے ہیں یہ تو ابھی دور کی بات ہے مگر میرا خیال ہے کہ بظاہر سعودی عرب شہبازشریف کو بطور وزیراعظم تسلیم کرنے پر مائل لگ رہاہے۔ خصوصی شاہی ہوائی جہاز سعودی عرب سے پاکستان بھیجا گیا جس میں شہبازشریف کو اہم ملاقاتوں کے لئے وہاں مدعو کیا گیا ہے ۔اس طرح کا پروٹوکول سعودی صرف ان رہنمائوں کو دیتے ہیں جن کو وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ دورہ جو کہ یقیناً نوازشریف کی مرضی سے ہی ہورہا ہے شہبازشریف کے لئے ایک بڑا ’’بوسٹ‘‘ ہے۔ یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کی وہ حمایت جس کاوہ خواہاں تھا نہ کرنے پر وہ نوازشریف سے ناخوش ہے حالانکہ یہ فیصلہ صرف نوازشریف کا ہی نہیں تھا بلکہ اس میں سب سے اہم رول تو اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمان کا تھا جنہوں نے یمن کے خلاف استعمال کرنے کے لئے سعودی عرب پاک فوج کے دستے بھجوانے کی سخت مخالفت کی تھی تاہم بعد میںملبہ سارا نوازشریف پر گر گیا۔ یو اے ای کی نوازشریف سے سخت ناراضگی کی وجہ بھی یہی ہے۔ چونکہ سعودی عرب ہمیشہ سے شریف خاندان کو بہت پسند کرتا رہا ہے لہٰذا نوازشریف کا بطور وزیراعظم یمن کے بارے میں فیصلہ سعودی عرب کے لئے قطعی طور پر نامنظور تھا۔ یہ سعودی محبت ہی تھی کہ جب2013میں نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ بھی دیا تھا تاکہ اس کی معیشت بہتر ہو سکے۔ ’’وزیراعظم شہبازشریف‘‘ کے لئے سعودی دورہ اچھا شگون ہے تاہم ابھی انتخابات تک کچھ مشکل مراحل طے کرنے ہیں اور رکاوٹیں عبور کرنی ہیں۔ بہت سے عناصر جو الیکشن نہیں چاہتے کیونکہ انہیں اس میں کچھ ملنے والا نہیں ہے کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح انتخابی عمل کو سبوتاژ کیا جائے۔ ان کی نظریں سربراہ پاکستان عوامی تحریک علامہ طاہر القادری پر لگی ہیں کہ وہ کوئی بہت بڑا ہنگامہ کھڑا کردیں جس سے انتخابات وقت پر نہ ہو سکیں۔ ن لیگ کے بہت سے مخالفین کو ڈر ہے کہ اگر الیکشن وقت پر ہو جاتے ہیں تو یہ جماعت جیت جائے گی اور پھر یہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ کاغذی جماعتوں کو تو چھوڑیں وہ تو ہر وقت اسی چکر میں لگی رہتی ہیں کہ کوئی طوفان آئے جو حکومت کو بہا لے جائے اور آئندہ کے غیر آئینی سٹ اپ میں سے انہیں کچھ مل سکے کیونکہ وہ کسی الیکشن میں تو کچھ حاصل کرنے سے رہیں۔ لہٰذا وہ تو علامہ صاحب کو ہر وقت زور دیتی رہتی ہیں کہ اپنا کام دکھائیں اور ایسے حالات پیدا کریں جس سے حکومت فارغ ہو جائے مگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پیپلزپارٹی کا اس طرح کی سازش میں شریک ہونا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ان کے لئے تو 2018کے انتخابات بہت اہم ہیں جن میں وہ بڑی کھلاڑی ہوں گی۔ اگر علامہ صاحب کے پیدا کردہ ہنگامے کی وجہ سے آئندہ الیکشن کے بروقت انعقاد پر کوئی برا اثر پڑتا ہے تو ان دونوں جماعتوں کو بھی نقصان ہو گا ۔
دریں اثناء پی ٹی آئی نے موروثی سیاست زندہ باد کا نعرہ بڑے زور و شور سے بلند کر دیا ہے جبکہ عمران خان ہمیشہ سے ایسی سیاست پر لعن طعن کرتے رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی ہر صورت جہانگیر ترین کو خوش رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اب عمران خان نے انکے بیٹے علی ترین کو لودھراں سے قومی اسمبلی کی جو نشست جہانگیر ترین کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی ہے کے لئے پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ اگر نوازشریف مریم کو سیاست میں آگے لائیں، اگر حمزہ شہباز ن لیگ میں اہم رول ادا کریں، اگر سیاست میں سلمان شہباز سرگرم ہونے کے لئے پر تولیں، اگر ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی شہید بیٹی بے نظیر بھٹو پیپلزپارٹی کو سنبھال لیں، اگر ان کے قتل کے بعد آصف زرداری اس کے چیف بن جائیں اوراگر وہ بلاول کو اپنا جانشین مقرر کردیں تو یہ موروثی سیاست ہے جو کہ عمران خان کے لئے قابل نفرت ہے، مزمت کی حقدار ہے مگر جب علی ترین اپنے والد کی سیاسی جگہ لے لیں تو قابل ستائش ہے۔ یہ صرف صرف دوغلا پن اور منافقت ہے۔ ہمیشہ سے پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کی سخت مخالفت رہی ہے مگر اس مخالفت کی حیثیت عمران خان کی نظر میں صفر رہی کیونکہ وہ کسی صورت بھی جہانگیر ترین کو اپنے سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتے وجوہات بہت سی ہیں جن میں ایک سب سے بڑی وجہ جہاز اور بے پناہ فنڈز ہیں جوکہ جہانگیر ترین عمران خان پر قربان کرتے ہیں۔

تازہ ترین