• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ انیمل سائنسز کے کانووکیشن میں جانے کا اتفاق ہوا اس علاقے کو گھوڑا اسپتال ،ٹیب روڈ، دیو سماج روڈ اور ریٹی گن روڈ اور سنت نگر کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ انیمل سائنسز کے عقب میں راوی دریا ہے کسی زمانے میں اس سے پہلے کھیت آتے تھے اور پھر دریا انتہائی صحت افزا اور تازہ ہوا سے بھرپور علاقہ تھا کبھی یہاں پر رات کو پڑنے والے کورے کو اکٹھا کر کے برف بنائی جاتی تھی لوگ صبح کو یہاں واک کرنے آتے تھے یہ بات ہم آج سے پچاس /ساٹھ برس قبل کی بتا رہے ہیں ہم خود بھی ان کھیتوں میں گزر کر راوی دریا پر کشتی چلانے جاتے تھے اور مشہور فلمسٹار فردوس (ہیر رانجھا فیم)کو ہم نے کئی مرتبہ برقعہ میں کشتی چلاتے یہاں دیکھا تھا خیر آج اس علاقے کو دیکھ کر اس قدر دکھ ہوا کہ بیان سے باہر ہر سڑک اور گلی دکانوں اور کمرشل مارکیٹوں سے بھری پڑی تھی گردوغبار اڑ رہا تھا۔ ٹریفک بے ہنگم ،شور اس قدر کہ بیان سے باہر کبھی اس علاقے میں دن کے وقت خاموشی ہوتی تھی گوروں نے ہر تعلیمی ادارہ شہر سے دور بنایا تھا تاکہ اسٹوڈنٹس پرسکون ماحول میں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ کنیئرڈ کالج، لاہور کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، کوئین میری کالج، گھوڑا اسپتال، گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج یہ تمام تعلیمی ادارے شہر سے باہر تھے۔ ہماری کسی حکومت نے نہ کوئی پلاننگ کی اور نہ سوچا اور دھڑا دھڑ کوٹھیاں، مکان اور کمرشل عمار تیں بنا ڈالیں کتنی دلچسپ اور عجیب صورتحال ہے کہ ہم آبادیوں کو فیکٹریوں، کارخانوں، اسکولوں اور کالجوں کے پاس خود لے آئے ہیں اب کہتے ہیں کہ فیکٹریوں کو یہاں سے کہیں اور منتقل کرو ،آج ہر تعلیمی ادارے کے باہر جو ٹریفک کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں کبھی ہم نے اس پر سوچاسیکورٹی کے نقطہ نظر سے بھی یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ ہم نے نئے شہر آباد کرنے کی بجائے صرف ایک لاہور اور کراچی پر ہی دبائو رکھا ہوا ہے۔ وہ خوبصورت لاہور جہاں سرے شام کئی بازاروں اور گلیوں میں کارپوریشن کی بیل والی پانی کی گاڑیاں آتی تھیں اور چھڑکائو کیا کرتی تھیں۔ سارے علاقے میں ایک بھینی بھینی خوشبو پھیل جاتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کا احترام اور عزت کرتے تھے۔ گھروں پر سبزی اور ڈبل روٹی انڈے والے آ کر چیزیں دیا کرتے تھے۔ خاندانی لوگ ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ لاہور شہر کے اندرو ن کا ماحول تو بہت ہی پیارا اور محبت والا تھا۔ البتہ بارہ دروازوں کے باہر جو علاقے تھےان میں ایبٹ روڈ، میسن روڈ، ماڈل ٹائون، ٹھنڈی سڑک، ڈیوس روڈ، ایمپریس روڈ اور کینٹ کے علاقے، اس وقت کی ایلیٹ کلاس یہاں رہتی تھی۔ خیراب تو سیاست میں آنے والا ہر فرد چند برسوں میں نام نہاد ایلیٹ کلاس میں شمار ہونے لگتا ہے۔اقدار،اچھی روایات، رکھ رکھائو، عزت و احترام سب کچھ ختم ہوگیا۔ وہ لاہور جہاں ٹھنڈی سڑک (سندر داس روڈ) ہوا کرتی تھی اب وہ بھی گرم ہوگئی ہے۔ وہ لاہور جہاں پر لوگ شام کو مال روڈ پر سیر کرنے آتے تھے، جہاں پر آپ کو اینگلو انڈین بھی نظر آتے تھے، جہاں پر پارسیوں کے عبادت خانے بھی تھے، جہاں پر مذہبی رواداری تھی، جہاں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار ہوتا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔نودولتیوں نے ہر روایت کو ایٹم بم لگا کر اڑا دیا۔ وہ لاہور اور وہ لوگ کہیں کھو گئے، اس کی تہذیب اور ثقافت کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی۔ وہ منٹو پارک کہیں گم ہوگیا، وہ اکھاڑے اور تکیے کہیں گم ہوگئے۔ اصل لاہوری اور امرتسری کہیں گم ہوگئے۔ یہ لاہور، لاہور نہ رہا اور وہ لوگ، لوگ نہ رہے۔ میڈیکل پروفیشن نے بھی اپنی اچھی اقدار کو چھوڑ دیا۔ ڈاکٹرز بے رحم ہوگئے، پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے ایک بازار لگا دیا، اسپتالوں کا نظام برباد ہوگیا تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کو شعبہ صحت کے معاملات کو درست کرنے کیلئے خود میو اسپتال اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے داخلوں پر بات کرنا پڑی۔ ایک نوبل پروفیشن آج انحطاط کا شکار ہوچکا ہے اور پچھلے دس برس میں تو جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ ملکی تاریخ اور میڈیکل تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے اس وقت ہر صاحب حیثیت شخص پرائیویٹ میڈیکل کالج بنانے کے چکر میں ہے اور آپ پچھلے دس سال کا جائزہ لے لیں کہ کس قدر پرائیویٹ میڈیکل کالج بنے، پیسے کی دوڑ نے تمام اقدار کو تباہ و برباد کر دیا ہے اس لئے عدالتوں کو میڈیکل کالجوں کے داخلوں کے انٹری ٹیسٹ کے معاملات میں بولنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کرپشن کس تیزی کے ساتھ پورے معاشرے اور نظام میں سرایت کر گئی ہے۔ آج پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخل ہونے والے مستقبل کے ڈاکٹر کو پانچ برس میں فیسوں وغیرہ پر چالیس سے پچاس لاکھ روپے دینے پڑتے ہیں پھر بیس سے تیس لاکھ روپے ڈونیشن کے نام پر وصول کئے جاتےہیں۔ آج ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج ایک ڈاکٹر بنانے پر 70لاکھ روپے لے رہا ہے کیا ایسے ڈاکٹر سے دکھی انسانیت کی خدمت، اقدار اور روایت پر چلنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟
بالکل نہیں۔ پھر ایسا ڈاکٹر تو چاہے گا کہ سال بھر میں اس کے تمام پیسے واپس آجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سوسائٹی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے جس طرح میو اسپتال، صاف پانی ، دودھ، سموگ اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے حوالے سے معاملات میں پوچھ گچھ کی وہ لائق تحسین ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے میو اسپتال کا دورہ کیا اور مختلف معاملات پر ناراضی کا بھی اظہار کیا۔ اگر حکومت عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تو پھر ظاہر ہے کہ عدالت کو عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کچھ تو کرنا پڑیگا۔ جسٹس ثاقب نثار نے بالکل درست کہا کہ الیکشن سے قبل سندھ اور پنجاب میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرکے رہیں گے۔ شہریوں کو گندا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ سندھ حکومت پر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ پہلے تک پانی کے مسئلہ کا حل چاہئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح پانی اور کراچی کے ٹینکر مافیا کے بارے میں ریمارکس دیئے، ہیپا ٹائٹس اور کچرے کے بارے میں بات کی وہ لائق تحسین ہے۔ دوسری طرف انہوں نے غیر رجسٹرڈ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو داخلے سے روک دیا ہے اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیسیوں کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ واقعی پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے دا خلے کے حوالے سے جو گڑ بڑ شروع کی ہے اس پر آج ہر عوامی حلقہ آواز اٹھا چکا ہے۔ مگر حکومت کی طرف سے ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے خلاف ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
کتنی دلچسپ صورت حال ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے مالکان سرکاری میڈیکل کالجوں میں کام کر رہے ہیں ۔ پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ سرکاری میڈیکل کالج ، یونیورسٹی کی بہتری کیلئے کام کرینگے ۔ سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں اور پرائیویٹ میڈیکل کالج سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔

تازہ ترین