• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد مخدوم سیّد علمدار گیلانی... تحریر: سید یوسف رضا گیلانی

میرے والد 12دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے ۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سید ابوالحسن شاہ رکھا گیا لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیاگیا اور یہی نام معروف ہوا۔ ہمارا گھرانہ سنی شیعہ اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حسب روایت دس محرم الحرام کے موقع پر جب تعزیوں کے ساتھ چلنے کے لئے تایا مخدوم شوکت حسین نکلے تو مخالف حکومت نے روکا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جلوس میں نہ آئیں۔سرکاری رکاوٹوں کے باعث تایا باہر نہ آئے، جس کی وجہ سے ملتان شہر کے تمام تعزیے رک گئے اور حالات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ انتظامیہ امن وامان قائم رکھنے کیلئے اُن کی منت سماجت کر کے جلوس میں لے آئی اس طرح تعزیے روانہ ہوئے ، یہ رسم آج بھی جاری ۔
والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا اُن دنوں سب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور ، مظفر گھڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ پہلے فرد مخدوم راجن بخش گیلانی کے بڑے بیٹے اور والد کے چچا مخدوم غلام محی الدین شاہ گیلانی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے 1927ء میں بی اے پاس کیا، بعدازاں وہ سول سروس میں رہے اور بطور سیکرٹری مغربی پاکستان ریٹائر ہوئے۔
والد نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سید زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر، چچا مخدوم غلام بنی شاہ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کیلئے کام کیا۔
مخدوم غلام نبی شاہ نے تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور ملتان کے دیہی علاقوں میں مسلم لیگ کو متعارف کروانے اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں 14اگست 1942ء کو مسلم لیگ ، ملتان شہر کا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ 1949ء تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ آپ کو 1944ء میں مسلم لیگ کی صوبائی مجلس عاملہ کارکن نامزد کیا گیا۔
پیر صدر الدین شاہ گیلانی 1946ء میں چچا سید رحمت حسین کی منگنی کے سلسلے میں مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ گیلانی کے ہاں جمال الدین والی، ضلع رحیم یار خان گئے ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی والدہ اور دوبیٹیوں میں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پر دادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیں اور بعد میں ان کی بیٹیوں میں سے ایک کی شادی 1948ء میں میرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسین سے ہوئی ، یوں اُن کی یہ دونوں بیٹیاں میری والدہ اور خالہ بنیں ۔ اُن کی تیسری بیٹی اُس وقت نوعمر تھیں، بعد میں اُن کی شادی پیر صاحب پگاڑو سے ہوئی ۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ میں لایاگیا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھیں، زُہدوتقویٰ اور پرہیز گاری میں اتنی مشہور تھیں کہ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو، ساتھ ہی وہ صاحب ثروت بھی تھیں)نے والد اور چچا رحمت حسین کو قائل کیا کہ آپ دونوں کی دلہنیں بڑے گھرانوں سے ہیں اور انہوں نے محلات میں پرورش پائی ہے، لہٰذا انہیں الجیلان روڈ پر واقع گھر ، الجیلان، لے جائیں اور وہیں رہائش پذیر ہوں ۔ یہ گھرآدھ مربع رقبہ پر محیط پھوپھی کی اپنی ملکیت تھا۔ سو، والد اور چچا رحمت حسین اس گھر میں منتقل ہوگئے۔ تایا ولائیت حسین پہلے ہی سے اُس گھر کے قریب رہائش پذیر تھے جونئے ڈیزائن کے مطابق تعمیر ہواتھا اور جس میں ایک تہہ خانہ تھا جوان دنوں ایک جدت تھی۔
والد اس گھر، الجیلان، کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین، وزرائے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان ، حسین شہید سہرودی ، آئی آئی چندر یگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لاچکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لاچکے تھے۔
گیلانی گروپ نے 1949ء میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے ساتھ ایک سیاسی معاہدہ کیا جو بعد میں ، گیلانی دولتانہ پیکٹ، کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے کی تحریر مندرجہ ذیل تھی: (جاری ہے)
تازہ ترین