• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج حالات حاضرہ پر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ ہماری ملکی سیاست تیزی سے رنگ بدل رہی ہے اور نہایت بے یقینی کا روپ دھار رہی ہے۔ اخبارات پڑھیں اور ٹی وی دیکھیں تو اندازوں، تجزیوں اور پیش گوئیوں کا ایک سیلاب بہہ رہا ہے۔ مگر کسی کو علم نہیں کہ یہ طوفان بلا کیا گل کھلائے گا، اے پی سی اور حکومت کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی کشیدگی، انتقامی جذبہ اور محاذ آرائی کتنے چراغ بجھائے گی، خوف و خدشات کے بادل اور رنگ بدلتی سیاسی صورت بالآخر کس مقام پر پہنچ کر دم لے گی۔ ایک بات ظاہر ہے کہ نئے سال کا آغاز بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بطن سے نئی سیاست بھی جنم لے سکتی ہے کیونکہ میرا اندازہ ہے کہ اگلے دو تین ہفتوں میں کچھ مزید اسکینڈلز، کچھ نیا مواد اورکچھ نئے شواہد سامنے آنے والے ہیں جوسیاست کی بے یقینی کو مزید بے یقین اور بے سمت بنا دیں گے۔ میں کچھ عرصہ قبل عرض کر چکا ہوں کہ 2018ء کا سال ہماری سیاست میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائےگا، کچھ نام سیاست کے اوراق سے مٹیں گے، کچھ مدھم ہو جائیں گے اور شاید کچھ نئے جگہ پائیں گے۔
میں یہ کالم اتوار کو لکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ نہ جانے چھپنے تک تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کیا شکل اختیار کرچکی ہو۔ نہ جانے کتنی پیشین گوئیاں، اندازے اور بلند بانگ تجزیے خاک میں مل چکے ہوں گے۔ آج ہی لندن کے ایک اخبار کے حوالے سے خبر چھپی ہے کہ میاں نوازشریف مقدمات کی واپسی کی شرط پر جلا وطنی قبول کر لیں گے مطلب یہ کہ وہ سیاست سے الگ اور تائب ہو جائیں گے۔میاں شہباز شریف پہلے ہی وزیراعظم نامزد ہو چکے ہیں اگرچہ فیصلہ آنے والے انتخابات کریں گے۔ یہ فیصلہ اس یقین یا اعتماد کی بنا پر کیا گیا ہے جیسے ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی فتح اور اکثریت یقینی ہو۔ یہ مفروضہ بے بنیاد ہرگز نہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ٹھوس ہے اور ہمدردی کی لہر پیدا ہونے کی صورت میںاس میں اضافہ بھی ہوگا اگرچہ یہ اضافہ پنجاب کی حد تک محدود ہوگا۔ میاں شہباز شریف کو کیوں اگلا وزیراعظم نامزد کیاگیا؟ پنجاب میں ان کا جانشین کون ہوگا؟ میاں شہبازشریف کو سعودی حکومت نے جہاز بھیج کر کیوں بلایا ور میاں نوازشریف کو اس اعزاز سے محروم رکھ کر عام فلائٹ سے کیوں ’’منگوایا‘‘ گیا؟ دونوں بھائیوں سے روا رکھے گئے سلوک کے حوالے سے اور کچھ دوسرے ایشوز کے تناظر میں سینکڑوں افواہیں گردش میں ہیں، ان افواہوں سے تجزیوں کے پیٹ بھرے جارہے ہیں کیونکہ کسی کو بھی پتہ نہیں کہ اندر خانے کیا کھچڑی پک رہی ہے اور اس دیگ سے کیا برآمد ہونے والا ہے۔ مگر ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ برادر ملک سعودی عرب کو پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تشویش ہے اور انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو کیا کیا خطرات لاحق ہیں اس لئے وہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے تدابیر کررہے ہیں۔ میاں برادران اور کچھ قریبی ساتھیوں کی سعودی عرب میں موجودگی انہی تدابیر کا حصہ ہے۔ اس پیچیدہ اور محاذ آرائی کی صورت سے کیا فارمولا یا حل برآمد ہوتا ہے اس بارے فی الحال کچھ کہنا محض پتنگ بازی ہوگی اور ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہوگا۔ کم سے کم مجھے کسی این آر او کی توقع نہیں، نہ ہی موجودہ عدلیہ کسی این آر او کو قبول کرے گی۔
عدلیہ نہ صرف ’’ایکٹیو‘‘ (Active) اور ادغانی (Assertive)ہوچکی ہے بلکہ احتسابی عمل کے نتیجے کے طور پر اسے ایک فریق بنا دیا گیا ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے تجزیات کے برعکس میری ذاتی رائے یہ ہے کہ میاں نوازشریف نہ جلاوطنی قبول کریں گے اور نہ این آر او کا حصہ بنیں گے۔ میاں نوازشریف پاکستان میں ہی رہ کر مقدمات کا سامنا بھی کریں گے، مسلم لیگ کے سیاسی جہاز کے کپتان بھی رہیں گے، احتجاجی سیاست کی راہ پر بھی گامزن رہیں گے اور موجودہ سیاست کو کسی منطقی انجام پر پہنچانے کی کوشش کریں گے بشرطیکہ وہ اپنے بے بصیرت شیروں اور خوشامدی حواریوں کے نرغے سے نکل آئیں۔ تجزیہ نگار میاں صاحب کی مشکلات کا منبع بیگم مریم صفدر کو قرار دیتے ہیں کیونکہ انہیں علم نہیں کہ مریم کے سیاسی فہم، حکمت عملی اور لائن آف ایکشن پر کون کون سے ’’عناصر‘‘ چھائے ہوئے ہیں۔ یہ وہی بے حکمت مشیران ہیںجو مریم کو بھی پٹی پڑھاتے ہیں اور پھر میاں صاحب کے سامنے مؤدب ہو کر سیاسی حکمت کے موتی بکھیرتے ہیں۔ ان عناصر کی وفاداری اور منفی سوچ میاں صاحب کے لئے ایک (Liability)گھاٹے کا سودا بن گئی ہے۔ تجزیوں کے دریا بہاتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ بار میاں صاحب نے جلاوطنی فوجی دور حکومت اور مشرف کی حکمرانی کی وجہ سے مقبول کی تھی۔ این آر او بھی مشرف کے شکنجے سے نکلنے کا ذریعہ تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ ملک میں جمہوری سیٹ اپ اور مسلم لیگ (ن) کی اپنی حکومت ہے۔ انہیں آئندہ انتخابات میں کامیابی نظر آرہی ہے۔ اب اگر احتسابی مقدمات سے گھبرا کر میاں صاحب این آر او قبول کرتے ہیں یا جلاوطنی تو یہ ان کی سیاسی زندگی کے لئے یوم ’’قیامت‘‘ ہوگا۔ شاید میاں صاحب ابھی تک اس انجام کے لئے تیار نہیں اورنہ ہی انہیں اس انجام کی طرف بڑھنا چاہئے۔ وہ پاکستانی سیاست کی ایک اہم حقیقت ہیں اور بھاری بھر کم حقیقت رہیں گے۔ اس لئے وہ میدان چھوڑ کر بھاگیں گے نہیں۔ غیر ملکی اور قومی اخبارات میں چھپنے والی ’’انکشافی‘‘ خبریں پڑھ کر مجھے ایک ’’ہڈ بیتی‘‘ یاد آگئی ہے۔ اسی لئے میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ میرے مشاہدے کا نتیجہ ہے نہ کہ سنی سنائی اور سونگھے ہوئے ادھورے سچ۔
میاں صاحب پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد ان کی صدر اسحاق سے سرد جنگ اور پھر گرم جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ کی بنیادی وجہ صدر اسحاق کی مداخلت اور وزیراعظم کو ربڑ اسٹیمپ بنانے کی خواہش تھی۔جب اختلافات آخری حد تک پہنچ گئے، صدر اسحاق نے اندر ہی اندر محترمہ بے نظیر بھٹو سے ساز باز کر لی اور 58(2)Bکے تحت نواز حکومت برطرف کرنے کی تاریخ بھی طے کرلی تو ایک روز مجھے میاں شہباز شریف کا فون آیا۔ میں ان دنوں پنجاب حکومت میں کھڈے لائن جاب پر تعینات تھا۔ میاں شہباز شریف نے کہاکہ فوراً اسلام آباد پہنچو۔ اسلام آباد پہنچا تو بتایا گیا کہ ایک گھنٹے کے بعد وزیراعظم صاحب یو اے ای جارہے ہیں اور مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہے۔ وزیراعظم صاحب آئے اور چار افراد پر مشتمل وفد خصوصی فلائٹ سے ابوظہبی روانہ ہوگیا۔ میاں صاحب نے بتایا کہ یو اے ای کے حکمران زید النہیان نے بلایا ہے۔ وہاں پہنچے تو یو اے ای کے حکمران نے اپنے محل میں ہمارا استقبال کیا۔ نصف گھنٹے کے بعد وزیراعظم اور یو اے ای کے حکمران کی ون ٹو ون میٹنگ شروع ہوگئی اورہمیں ڈائننگ روم میں بھجوا دیا گیا۔ میٹنگ ختم ہوئی، ہم ٹیک آف کرنے والے تھے تو راز کھلا کہ یو اے ای کے حکمران میاں نوازشریف اور صدر اسحاق کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹیک آف کرنے سے پہلے میاں صاحب نےبتایا کہ سعودی فرمانروا کا فون آیا کہ براستہ ریاض واپس جائیں۔ میاں صاحب نے سعودی فرمانروا سے کہا میں تین چار دن بعد آئونگا۔ میں نے مشورہ دیا کہ تین چار دن کی تاخیر کے بعد ملاقات کا مقصد فوت ہوجائے گا لیکن میاں صاحب نہ مانے۔ سعودی بادشاہ بھی صلح کروانے کے لئے ہی بلارہے تھے ہم اسی رات لاہور واپس پہنچے اور اگلے دن وزیراعظم صاحب نے وہ مشہور تقریر کی جس میں کہا کہ وہ (Dictation) ڈکٹیشن نہیںلیںگے۔ چنانچہ صدر اسحاق خان صاحب نے میاں صاحب کی حکمت ختم کردی۔ اگر میاں صاحب چاہتے تو سعودی اور یو اے ای کے حکمران مل کر ان کی حکومت بچا سکتے تھے۔ مطلب یہ کہ سعودی عرب کئی دہائیوں سے ہمارے حکومتی معاملات میں شریک رہا ہے۔ سیاست کے اس اہم موڑ پر میاں صاحبان کا سعودی عرب بلایا جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ دوم مارشل لاء اورفوجی حکومت کی بات اور ہے ورنہ میاں صاحب سیاسی حکومت سے دب کر جلاوطنی اختیار کرنے والے نہیں۔میرے اندازے کے مطابق میاں صاحب مزاحمتی سیاست کریںگے اور ملک میں ہی رہیں گے۔

تازہ ترین