• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے گزشتہ کالم ’’ایک اور این آر او؟‘‘ کے جواب میں ن لیگ کی قیادت نے ملے جلے ردعمل میں کسی بھی این آر او یا ڈیل کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی، تاہم کالم کی اشاعت کے اگلے ہی روز ’’ڈیل‘‘ کے معاملات طے کرنے کا اگلا مرحلہ آن پہنچا اور بڑے میاں صاحب کے نامزد کردہ وزیراعظم شہباز شریف خصوصی طور پر بجھوائے گئے سعودی طیارے میں مقدس سرزمین پر پہنچ گئے، ابھی ان کی عمرہ ادائیگی کی تصاویر منظر عام پر آہی رہی تھیں کہ بڑے میاں صاحب کو بھی کال آگئی، وہ بھی ریاض پہنچ گئے، میں نے لکھا تھا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں،99ء اور موجودہ حالات ایک سے ہیں تاہم سیاسی افق پر مناظر ذرا مختلف ہیں، الزامات، اعتراضات، تنازعات اور انتظامات کا انداز بھی جداگانہ ہے، ایک اہم پہلو یہ ہے کہ فریقین بھی وہی ہیں اور تنازع بھی وہی پرانا جبکہ موجودہ حالات کی وجوہات بھی وہی۔ سیاسی ہاہاکار مچی ہے تو ہر سطح پر وضاحتوں کے انبار بھی۔ بالادست ادارہ آئین کی پاسداری اور جمہوری نظام میں عدم مداخلت کی قسمیں کھا رہا ہے تو نااہل قرار دئیے جانے والا سراپا احتجاج ہے کہ اس نے جو کیاعوام اور وطن کی محبت میں کیا ہے تو برا کیا کیا؟ جذباتی اس قدر کہ تحریک انصاف کے بجائے، انصاف کی تحریک چلانے کے در پے ہے۔
سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی افراتفری کی اس ہیجان خیزی نے سیاسی زعما کی بصیرت کو بھی گرہن لگا دیا ہے، تانگہ قرار دی جانے والی پارٹیوں کو چھوڑ بھی دیں تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت جو ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں جلاوطنی پرمجبور ہوئی، معاہدے کرتی ہے، وطن واپسی کے لئے ’’این آر او‘‘ کرتی ہے، قوم کی خاطر مل کر چلنے اور سیاسی جدوجہد کی قسمیں کھاتی ہے، ایک چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی ہے، یہی دستاویز سیاسی بصیرت کی معراج بنتی ہے، دونوں بڑی جماعتیں کسی بھی حال میں سیاسی ڈائیلاگ ترک نہ کرنے کا حلف اٹھاتی ہیں، حلف کی پاسداری میں ایک عظیم بے نظیر خاتون، عزم مصمم کے ساتھ جمہوریت پر قربان ہو جاتی ہے، قربانی کے نتیجے میں دوسرے دستخطی جمہوریت کے مشعل بردار بن جاتے ہیں، منظر بدلتا ہے، شہید خاتون کے جلاوطن شوہر کی انٹری ہوتی ہے اور وہ پارٹی ہی نہیں ریاست کے سربراہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ گو مسٹر زرداری سیاسی مصلحت اور مفاہمت کے بڑے داعی بن کر ابھرتے ہیں سامنے آتے ہیں لیکن وقت ثابت کرتا ہے کہ صرف اقتدار کے وقت کیونکہ جمہوری سفر اختلافات کی دھول میں کہیں گم ہو جاتا ہے، سیاسی مفادات دلوں اور ذہنوں پر حاوی ہوجاتے ہیں، دو جماعتیں جس پاکیزہ بندھن میں بندھی تھیں وہ اس قدر کمزور اور نحیف ہو جاتا ہے کہ نوبت سیاسی طلاق تک جا پہنچتی ہے، وہ جو میاں اور زرداری کبھی گرم جوشی سے گلے ملتے اور پہروں کھلے عام اور ’’چھپ‘‘ کر باتیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے گلے پڑنے لگے، زرداری صاحب ایک ملاقات کے انکار سےاس قدر دلبرداشتہ ہوتے ہیں کہ دوبارہ اقتدارکی خاطر رقیب کی زلفوں کے اسیر ہوجاتے ہیں، نئی الفت کا راستہ انہیں ایسے در پر لے جاتا ہے ’’جس‘‘ کو آج تک خود کچھ نصیب نہیں ہوا نہ عوام میں اس کی کوئی حیثیت ہے نہ خواص میں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یہی مفاہمت سیاسی میدان میں ان کے ساتھ کرتے جوان کی قدر کیا کرتے تھے، جلد بازی اور شارٹ کٹ کی بجائے وہ راستہ اختیار کرتے جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی منزل کو جاتا ہے۔ میاں صاحب اقتدار کے نشے میں کچھ وعدے قسمیں اور وفا بھول بھی گئے تھے تو آپ تو مفاہمت کےچیمپئن تھے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی طاقت کم کرنے کی بجائے ان سے مل کر خود اور جمہوریت کو مزید طاقتور بناتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ بڑے بھائی کے نہ بلانے پر آپ بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے خود ملنے چلے جاتے، پر یہ سب نہ ہوا، آج حال یہ ہے کہ تمام ’’جمہوریت پسند‘‘ ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جا رہے ہیں، جس در پر جانے کو کہا جاتا ہے آمین کہتے ہیں، جہاں جانے سے روکا جاتا ہے رک جاتے ہیں، جو کہا جاتا ہے اس پر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں اور جس بات سے انکار کیا جاتا ہے دوبارہ اس کی تمنا نہیں کرتے۔ حیران کن امر ہے کہ جس ملکی و عوامی مفاد کے بینر تلے سب ’’محب وطن‘‘ اکٹھے اور یک زبان ہو رہے ہیں، عوام کو معلوم ہے کہ اس کی ایک ہی منزل ہے اور وہ اقتدار کے سوا کیا ہے؟ وقت کے ساتھ ہمدرد کم ہوئے لیکن ترکی کی محبت نے میاں صاحبان کو سعودی عرب جیسے دیرینہ و وفا شعار دوست کے پھر سے قریب کر دیا ہے؟ دوسری طرف سے وہاں موجود ایک سابق سپہ سالار بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر این آر او سیاسی طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں کی ضرورت رہا ہے، 99ء اور 2007ء میں این آر او ڈکٹیٹر کو وردی میں سیاست کے لئے سوٹ کرتا تھا جبکہ اب فوج سیاست میں مداخلت سے نہ صرف مکمل طور پر انکاری ہے بلکہ آرمی چیف واشگاف الفاظ میں پارلیمنٹ کو سپریم، خود کو حکومت و آئین کے تابع اور جمہوریت کا سخت حامی قرار دے چکے ہیں، باخبر حلقے کہتے ہیں کہ اب کی بار آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ غیر موزوں عالمی حالات کے تناظر میں معاملات کو وائنڈ اپ کرنے کی جلدی کی جارہی ہے، ہر قسم کی اطلاعات بھی آرہی ہیں اور تردیدیں بھی، میاں صاحب پر واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ کرپشن کے خود پر لگے الزامات اور کیسز سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں فی الوقت اقتدار اور سیاست سے دور رہنا ہوگا، بیٹی کی والد سے والہانہ محبت اور جذباتی لگائو فطری اور اظہار وقت کی ضرورت تو ہے مگر یہ عوامی قرار نہیں دیا جارہا، ن لیگ کی قیادت بھی اس بیانیہ سے خود کو مسلسل الگ رکھے ہوئے ہے ایسے میں چھوٹا بھائی ہی امید کی کرن ہے جس میں مفاہمت کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے وہ اپنے اقتدار کو بچاتے ہوئے اپنے خاندان کا بیڑا پار کرانے کا راستہ بھی نکال سکتا ہے، بڑے میاں صاحب کی طلبی کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اب باز آجائیں ورنہ نہ بچے (رہے) گا بانس نہ بجے کی بانسری، اب ان پر منحصر ہے کہ وہ اثاثوں پر’’ڈیل‘‘ کرتے یا سیاست پر؟ قوم تو برسہا برس سے تماشائے اہل کرم دیکھ رہی ہے، نئے سال میں اس عزم کا اظہار کرلیں کہ ایک دوسرے کے گریبان چاک کرنے کی بجائے اپنے اپنے گریباں میں جھانک کر اپنے حصے کی شمع جلائیں، اپنے پیارے وطن عزیز کا سوچیں جو اس وقت اندرونی وبیرونی خطرات کی زد میں ہے، دوسروں کو کرپٹ اور خود کو پاکباز قرار دینے کی روایت ترک کریں، اپنے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کا اعلان کر کے ہر دور میں قوم کی لوٹی دولت واپس کرنے کا اعلان کردیں، سیاست کو پراگندہ کرنے کی بجائے عوام میں اس کی ساکھ بحال کرنے کی جدوجہد کا آغاز کریں، دوسروں کے کندھے کی بجائے اپنی ساکھ اور شفاف انتخابات کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کا تجربہ کریں، سیاسی قوتوں کے پاس ابھی کچھ وقت اور سنہری موقع بچا ہے کہ آئیں سب مل کر ایک ڈیل کرلیں خود کو اقتدار کی بے لوث ’’محبت‘‘ میں مبتلا کرنے کی نہیں، سیاست اور جمہوریت کو بچانے کی۔

تازہ ترین