ایم کیو ایم کے طرز سیاست اور نظریات سے ہزار اختلاف کے باوجود میں اپنی آواز اُن آوازوں میں شامل نہیں کرنا چاہتا جو کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم (الطاف) ایک دہشت گرد پارٹی ہے اور یہ کہ ایم کیو ایم والے غدار اور ملک دشمن ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہر دوسرا شخص ملک دشمنی پر اترا ہوا ہے۔ کسی کو ملک کا خیال ہے اور نہ اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا۔ اگر الطاف حسین نے اپنی انتہائی طویل پریس کانفرنس میں بار بار یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ملک دشمن نہیں ، وہ غدار نہیں تو پھر ہم کیوں اس ضد پر اڑ جائیں کہ نہیں جناب آپ غدار ہیں، آپ ملک دشمن ہیں، آپ کی پوری جماعت دہشت گردوں کا ٹولہ ہے، آپ سب قاتل ہیں۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کا کراچی کی قتل و غارت، بھتہ خوری اور غنڈہ گردی میں ایک بڑا کردار رہا ہے مگر کیا پارٹی میں چھپے غنڈوں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کی وجہ سے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سب کے سب بُرے بن گئے۔ کیا پی پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم حقیقی، سنّی تحریک بھی کراچی میں قتل و غارت، بھتہ خوری اور غنڈہ گردی میں مصروف نہیں۔ یقیناً کراچی اس وقت مافیا کے قبضے میں ہے اور اس مافیا کی پشت پناہی کرنے میں وہاں کی تمام اہم سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ بلاشبہ دوسروں کے برعکس ایم کیو ایم کو انتہائی سنگین الزامات کا سامنا ہے مگر اس سارے مسئلہ کے حل کے لئے احتیاط اور سمجھداری کی ضرورت ہے۔ کچھ بنیادی اصول طے کر کے اُن پر سختی سے عمل کرنے سے ہی ہم کراچی میں دیرپا امن کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ تقسیم در تقسیم، نفرت اور الزام تراشی سے کام نہیں بنے گا بلکہ مزید خراب ہو گا۔ قانون کی بالادستی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت ہو،سیاست کو دہشت گردی، تشدّد اور جرائم سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم ہو، پی پی پی یا اے این پی سب کو اپنی صفوں سے جرائم پیشہ افراد کو علیحدہ کرنا ہو گا۔ کسی مخصوص جماعت یا فرقہ کو سیاسی و سماجی تنہائی میں دھکیلنے کی بجائے مجرموں، جرائم پیشہ افراد، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں چاہے ان کا کسی بھی جماعت یا طبقہ سے تعلق ہو، کو تنہا کر کے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ قتل خواہ کسی کا بھی ہو، ہر قاتل کا پکڑا جانا ضروری ہے۔ کس جماعت کے کتنے لوگوں کو مارا گیا، اس بحث میں پڑے بغیر ہر قتل کا حساب مانگا جائے مگر اس کے لئے پولیس، رینجرز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ مینڈیٹ دیا جائے کہ وہ بلا کسی خوف و ڈر ہر ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور مجرم کو پکڑیں۔ جب تک پولیس اور پروسیکیوشن سیاسی دباؤ سے آزاد نہ ہوں گے، کراچی مافیا کے تسلط میں ہی رہے گااور وہاں سیاست کو تشدّد اور دہشت گردی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ملک دشمن اور غدار ثابت کرنے کی بجائے کوشش کی جانی چاہئے کہ وہ محب وطن بنیں۔ کسی کو اس حد تک دیوار سے نہ لگایا جائے کہ کوئی ملک دشمنی پر اتر آئے۔ ہمیں نئے شیخ مجیب الرحمن بنانے سے گریز کرنا ہو گا۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آخر الذوالفقار بننے کے کیا اسباب تھے، نواب اکبر خان بگٹی کے قتل نے کس طرح بلوچستان میں وطن دوستوں کو ملک دشمن بننے پر مجبور کر دیا، کل کی غدار اور ملک دشمن نیشنل عوامی پارٹی آج کی محبّ وطن عوامی نیشنل پارٹی کیسے بن گئی۔ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ الطاف حسین کا 2001ء میں ٹونی بلیئر کو لکھا گیا خط بالکل درست تھا تو کیا ہم حق بجانب ہونگے کہ بغیر کسی عدالتی فیصلہ کے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو غدار اور ملک دشمن قرار دے دیں۔ 2 ستمبر 1990ء کو بے نظیر بھٹو سے منسوب امریکی سینیٹر گلبرائتھ کو لکھا گیا خط تو الطاف حسین کے خط سے کئی گنا زیادہ سنگین تھا مگر کیا ہم اس حقیقت سے واقف نہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے اپنے ملک کے میزائل پروگرام کی ترقی کے لئے وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے ذاتی ہینڈ بیگ میں میزائل ڈیزائن شمالی کوریا سے پاکستان چھپا کر پہنچایا۔ کیا یہ فیصلہ بہتر نہ تھا کہ الذوالفقار کے بانی مرتضیٰ بھٹو کو سیاست میں آنے کا موقع دے کر تشدّد کا
خاتمہ کیا جاتا۔ ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی اگر اپنے ماضی کے تلخ تجربات کے تناظر میں غور فرمائیں تو انہیں 9/11 کے بعد پاکستان کے اندر دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کے اسباب بھی سمجھ میں آ جائیں گے۔ اگر یہ تینوں جماعتیں امریکہ کا خوف اپنے دل و دماغ سے نکال دیں تو انہیں یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ آخر محبّ وطن الیاس کاشمیری ملک دشمنی پر کیوں اتر آیا۔ معصوم بچوں کو خودکش بمبار بنانے میں ہماری امریکا نواز پالیسیوں کا کتنا کردار ہے ۔مگر اپنی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے والے ہمارے رہنما یہ بات کہاں سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ الطاف حسین نے اپنی پریس کانفرنس میں کئی متنازعہ باتیں کیں مگر میں یہاں صرف اس نکتہ پر بات کروں گا کہ آیا پاکستان کو ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے یا کہ اسلامی؟ الطاف حسین صاحب نے قائداعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کے ایک مخصوص حصہ کو پڑھ کر فتویٰ صادر فر مادیا کہ قائد اعظم سیکولر اسٹیٹ بنانے کے حامی تھے۔ ُان کی پریس کانفرنس کا یہ حصہ نہ صرف قرآن پاک اور حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی مکمل نفی تھا بلکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے بالکل متضاد تھا۔ جس قرآن کو اُٹھا کر، چوم کر اور بارہا ہوا میں لہرا کر الطاف حسین صاحب نے لوگوں کو پڑھنے کی تلقین کی، وہی قرآن ہر مسلمان پر اس کُرّہ ارض پر اللہ اور اللہ کے رسول کے قانون کے نفاذ کی ذمّہ داری عائد کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی ہمارا آئین پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کا درجہ دیتا ہے۔ اگر قائداعظم کا مقصدپاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ ہی بنانا تھا تو پھر الطاف حسین صاحب سے بہتر کون جواب دے سکتا ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کو پاکستان بننے پر بیش بہا قربانیاں دینے اور ہندوستان سے یہاں ہجرت کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ اگر سیکولر اسٹیٹ بننا ہی مقصور تھا تو علیحدگی کی کیا ضرورت تھی۔