ماسٹر منظور کے ناتواں کاندھوں پر 11 سال سے دماغی امراض میں مبتلا بیوی کے علاج کا بوجھ ہی کیا کم تھا کہ اب لگ بھگ پورا گھرانہ ہی جگر کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔ وہ ایک صابر، شاکر شخص ہے۔ اس نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ وہ بڑی سے بڑی مشکل میں کسی این جی او یا کسی خیراتی ادارے کے دفتر کے آگے لگی قطار میں کھڑا ہوکر اپنی باری کا انتظار نہیں کرسکتا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں تھال لے کر کسی درگاہ کے لنگر سے اپنے بچوں کے لئے چاول چھولے نہیں لاسکتا۔ وہ 35 سال سے بچوں کو پڑھارہا ہے۔ وہ جس طرف بھی نظر اٹھاتا ہے اُسے سامنے اپنا کوئی نہ کوئی شاگرد نظر آجاتا ہے۔ اپنے شاگردوں میں اس کا بڑا بھرم رہا ہے۔ وہ کاسہٴ گدائی لے کر یا اپنی جھولی پھیلا کر کہیں بھی نکلے گا۔ اُسے اپنے سامنے کوئی نہ کوئی شاگرد نظر آئے گا۔ وہ شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے۔
میں ماسٹر منظور کو پچھلے 45 برس سے جانتا ہوں۔ وہ گورنمنٹ پرائمری اسکول بھانو والا سے پانچویں جماعت پاس کرکے گورنمنٹ مڈل اسکول کوٹ طاہر میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کے اس چھوٹے شہر کے بڑے اسکول میں وہ میرا کلاس فیلو بنا۔ ہم نے مل کر خواب دیکھے۔ خوشحالی کے خواب، آسودہ حالی کے خواب، مساوات کے خواب، دکھوں سے نجات کے خواب، پھر ہم اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے مگر ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رہا۔ کبھی وہ خط لکھ دیتا، کبھی فون کر لیتا یا کبھی کبھار ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر کا سفر کرکے خود کراچی چلاآتا۔ اس بار ایک طویل وقفے کے بعد اُس کا چار صفحات پر مشتمل خط ملا تو میں اندر سے ہل گیا۔ اس نے زندگی بھر جو کچھ کمایا(اور ایک پرائمری ٹیچر کماتا ہی کیا اور بچاتا ہی کیا ہے( وہ بیوی کے علاج پر لگادیا۔ اُس نے ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان کے اُن سات ماہر فزیشن ڈاکٹروں اور سرجنوں کے نام لکھے ہیں جن سے اپنی بیوی کا علاج کراتا رہا مگر اس کی صحت بحال نہ ہوئی، اُس کی بیوی اب بھی بیمار ہے۔
2010ء کا خونی سیلاب جس طرح چاروں صوبوں کے کروڑوں لوگوں کے لئے قیامت بن کر آیا اسی طرح یہ سیلاب ماسٹر منظور کے گھرانے کے لئے بھی قیامت ثابت ہوا۔ ماسٹر منظور کا گاؤں دریائے سندھ کے آخری دفاعی بند کے قریب واقع ہے۔ ہم گرمیوں کے ہر موسم میں دریائے سندھ کے سیلابی پانی میں تیر کر اس کے گھر جاتے تھے مگر اس بڑے سیلاب نے تو کچھ بھی باقی نہیں رکھا۔ سال بھر کا اناج، دوبیٹیوں کا جہیز، سارے گھر کے کپڑے، بستر، برتن، پانی پینے کے جگ،گلاس، غرض رات کو 10 بجے آنے والا طوفانی سیلاب گھروں کو اُن کی بنیادوں اور ان میں رکھے اسباب سمیت بہالے گیا۔ وہ بیمار بیوی، روتی پیٹتی بچیوں، اداس، غمگین اور ملول بیٹوں اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ اندھیری رات میں کہیں گھٹنوں گھٹنوں اور کہیں گردن گردن سیلاب کے پانی میں مسلسل سات گھنٹے پیدل چل کر اپنے دوست غلام سرور کے گھر پہنچا۔ یہ خانماں برباد خاندان ڈیڑھ ماہ تک ماسٹر منظور کے دوست کے گھر پر رہنے کے بعد اپنی بستی میں واپس آیا۔ اس کا گاؤں کھنڈر بن چکا تھا۔ چھتیں اور دیواریں بہہ گئی تھیں۔ گھروں کے آثار مٹ چکے تھے۔ کوئی سایہ نہیں رہا تھا۔کوئی چھت نہیں بچی تھی، کوئی سائبان تھانہ سایہٴ شجر تھا۔
اتنے بڑے گھرانے کے لئے وطن کارڈ کے 20 ہزار روپے تو 20 دن بھی نہیں چلتے۔ اب گھرانہ باقی تھا، گھر باقی نہیں رہا تھا۔ ماسٹر منظور بیمار بیٹی کا علاج کرانے جام پور لے گیا، لیبارٹری ٹیسٹوں کے دوران معلوم ہوا کہ اُسے ہیپاٹائٹس سی کا عارضہ لاحق ہوچکا ہے۔ پھر سارے گھر والوں کا چیک اپ کرایا تو معلوم ہوا کہ ماسٹر منظور اس کی بیوی، دو بیٹیوں اور ایک بہو کو بھی ہیپاٹائٹس سی لگ چکا ہے۔ اس کی دو بیٹوں میں سے ایک سول ٹیکنالوجی ڈی اے ای کا ڈپلومہ لے چکا ہے، جب کہ دوسرے نے الیکٹرانکس کا ڈپلومہ حاصل کیا ہے۔ وہ کمپیوٹر سافٹ ویئر کا کورس بھی کرچکا ہے مگر دونوں بیٹے بیروزگار ہیں۔ وہ نوکری کے لئے کئی دروازوں پر دستک دے چکے ہیں مگر ان کے پاس کوئی سفارش نہیں اور نہ ہی رشوت۔
وہ کیمپوں کی زندگی گزار رہا ہے۔ ایک پرائمری ٹیچر کی معمولی تنخواہ اتنے بڑے گھرانے کی کفالت کا بوجھ نہیں اُٹھا پا رہی۔ بیماری، بے روزگاری اور بے گھری کا بوجھ کون اُٹھائے۔ جس روز مجھے اس کا خط ملا اس سے ایک روز پہلے میں لاہور میں تھا۔ اس نے بے بسی سے مجھے فون کیا اور کہا کہ میری بیٹی کوما کی حالت میں نشتر اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود ہے۔ تم اس کے لئے کیا کرسکتے ہو۔ میں نے لاہور ایئرپورٹ کے لاؤنج سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما برادر محترم سینیٹر پرویز رشید کو فون کیا۔ انہوں نے ازراہ کرم نشتر اسپتال ملتان کے انچارج ڈاکٹر ظفر اقبال رضوی سے بات کی۔ ڈاکٹر ظفر اقبال رضوی اور اسپتال کے عملے کی کوششوں سے ماسٹر منظور کی بچی کوما سے باہر آگئی۔ وہ ایک بچی تو کوما سے باہر آگئی ہے مگر یوں تو پورا گھر اب بھی کوما میں ہے۔ ماسٹر منظور‘اس کی بیوی، دو بیٹیاں اور ایک بہو ہیپاٹائٹس سی کے جبڑوں میں ہیں۔ وہ بے گھری کے غذاب میں مبتلا ہیں۔ وہ چادر اور چاردیواری کو ترس رہے ہیں۔ اُن کے گھر میں بیروز گاری کے بھوت کا بسیرا ہے۔
اس گھر کے بیٹے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ڈگریاں لئے دربدر کی خاک چھان رہے ہیں۔ مگر ہم کیا کریں ہمارے ملک میں ہر صاحب اختیار کا دروازہ ہر دستک پر تنقید کرتا ہے۔ اب ماسٹر منظور گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کا ہوکر رہ گیا ہے۔ آنے والے ایک دو برسوں میں وہ ریٹائرڈ ہونے والا ہے۔ اس گھر کی آمدنی کا آخری وسیلہ بھی ختم ہونے والا ہے۔ وہ استاد ہے۔ ہمارے دیہی سماج میں استاد کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔ وہ کبھی کاسہ بدست نہیں ہوتا۔ استاد کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اگر کبھی استاد سردار عالم خان، استاد غلام سرور خان، استاد امیر بخش خان، استاد رسول بخش خان، استاد گل محمد خان، استاد حاجی محمد خان گھر سے باہر نکلتے تو سیکڑوں نظریں جھک جاتی تھیں۔ اب بھی یہی ہوتا ہے۔ ماسٹر منظور گھر سے نکلتا ہے تو سیکڑوں نظریں جھکی ہوتی ہیں۔ آپ جھکی نظروں سے کوئی سوال تو نہیں کرسکتے۔ آپ اُن سے کچھ مانگ تو نہیں سکتے۔ آپ ان کے سامنے ٹوٹ پھوٹ تو نہیں سکتے، اگر کسی نے ناں کردی تو…کیا آپ بھی ناں کردیں گے۔ ایک استاد نے عمر بھر روشنی بانٹی اب وہ خود اندھیرے میں ڈوب رہا ہے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور اپنے دل سے سوال کریں کہ آپ ماسٹر منظور کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کا دل آپ سے کچھ کہے تو آپ دل کی بات سنیں ضرور اور اگر وہ کچھ کرنے کوکہے تو کریں ضرور۔