• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال بچوں کا ہوتا ہے، ڈاکٹر عبدالوہاب زئی

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سربراہ شعبہ نفسیات شفاء انٹرنیشنل اسپتال ڈاکٹر عبدالوہاب زئی نے کہا ہے کہ یہ ضروری نہیں بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ذہنی طور پر بیمار ہوں ، ایسے لوگ اپنی حیوانی جبلت کو قابو کرنے میں ناکام رہتے ہیں، ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال بچوں کا ہوتا ہے، ایسے واقعات کو چھپانے کے بجائے اس پر بات کی جانی چاہئے ،بچوں کا جذباتی استحصال بھی اتنا ہی خطرناک جتنا جسمانی استحصال ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پرو گرا م میں گفتگو کرتے ہوئے تنظیم ساحل کے سینئر پروگرام آفیسر میڈیا ممتاز گوہر نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پورے پاکستا ن میں ہورہے ہیں،پچھلے دس سال میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعا ت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے،زینب کیس کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ان واقعات کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ بچے سمجھے جاتے ہیں لیکن بچوں کا تحفظ ریاست اور حکومت کی ترجیحات میں سب سے نیچے ہے،قصور واقعہ پر سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی متحرک نظر آئے جن کی گفتگو سے اس سانحہ کے پیچھے سیاسی تنائو کا اندازہ ہوجاتا ہے، صوابی میں بھی چار ماہ پہلے اسی قسم کا واقعہ ہوا لیکن اس پر میڈیا کی توجہ نہیں بنی تھی، سندھ میں ضلع جیکب آباد میں اسی طرح کا واقعہ ہوا جس میں مجرم کو گرفتار کرلیا گیا ، جمعرات کو پنجاب کے شہر بھلوال میں بھی ایک بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر کے کھیتوں میں پھینکا گیا، اکتوبر میں ڈیرہ اسماعیل خان میں بچی کو برہنہ کر کے گھمانے کا واقعہ ابھی بھی لوگ نہیں بھولے ہیں۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ قصور واقعہ سے لگتا ہے کہ پنجاب حکومت نے پچھلے واقعات سے کچھ نہیں سیکھا، شہباز شریف خود کو بہترین ایڈمنسٹریٹر کہتے ہیں لیکن قصور میں مسلسل بچوں سے زیادتی کے واقعات کے بعد کسی بھی ایڈمنسٹریٹر کی آنکھ کھلنی چاہئے تھی لیکن نہیں کھلی، حکومت کو اس طرح کے واقعات کے بعد جو اقدامات کرنے چاہئے تھے وہ نہیں کیے گئے، پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن واقعہ سے بھی انتظامی طور پر کچھ نہیں سیکھا ، اگر کچھ سیکھا ہوتا تو پولیس کے کمانڈ اسٹرکچر کو تبدیل کرتی اور احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسانے والوں کی انگلیاں ٹریگر سے ہٹوانے کا بندوبست کرتی۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ قومی سانحے کے بعد قومی اتحاد کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی، سیاسی جتھہ بازی کا آغاز ہوا ہے، اپوزیشن کا بیانیہ ہے کہ زینب کے واقعہ سے ثابت ہوگیا کہ نظام سیاسی طور پر ناکام ہوگیا ہے، سیاسی طور پر اس معاملہ کا استحصال زیادہ نظر آرہا ہے، قصور شہر میں ہی بچوں کے ساتھ زیادتی کے گیارہ مزید واقعات ہوئے لیکن انہیں وہ تشہیر نہیں ملی جو زینب کے واقعہ کو ملی ہے، اب سب شمعیں روشن کررہے ہیں،وہ ہزاروں بچے بہت بدقسمت ہیں جوجنسی تشدد کا نشانہ بنتے اور قتل ہوتے ہیں لیکن ان کیلئے کوئی شمع روشن نہیں کرتا ہے۔سربراہ شعبہ نفسیات شفاء انٹرنیشنل اسپتال ڈاکٹر عبدالوہاب زئی نے کہا کہ یہ ضروری نہیں بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوں ، ایسے لوگ اپنی حیوانی جبلت کو قابو کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یہ لوگ بہت سے معاملات میں نارمل رویہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن کبھی صورتحال ایسی ہوسکتی ہے جس میں وہ ابنارمل رویہ کا اظہار کریں، تنائو کی حالت میں بہت سے لوگ عجیب قسم کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ ویسے وہ نارمل ہوتے ہیں، اگر کسی شخص کا انفرادی میکنزم ناکام ہورہا ہو تو معاشرے میں قانونی و سماجی اداروں کے ایسے میکنزم ہونے چاہئیں جو کام کریں اور ایسے واقعات نہ ہوں۔ ڈاکٹر عبدالوہاب زئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نفسیات سے متعلق بہت کم ریسرچ ہے خاص طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی ذہنی کیفیت کے حوالے سے تو بالکل نہیں ہے، دنیا میں بچوں کی طرف جنسی رجحان رکھنے والوں پر کچھ ریسرچ ہوئی ہے جس کے مطابق تین فیصد سے بھی کم لوگوں میں یہ رجحان ہوتا ہے ،ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال بچوں کا ہوتا ہے، اس معاشرے میں عورتوں سے زیادہ بچے غیرمحفوظ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالوہاب نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی آگاہی دینا ہوگی، ایسے معاملات کو چھپانے کے بجائے اس پر بات کی جانی چاہئے بصورت دیگر ایسے واقعات روکے نہیں جاسکیں گے، بچوں کا جذباتی استحصال بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جسمانی استحصال ہوتا ہے، بچوں کے تحفظ کا آغاز ہمیں گھر سے کرنا ہوگا، جو لوگ بچپن میں استحصال کا شکار ہوتے ہیں بہت ممکن ہے مستقبل میں وہ استحصال کرنے والے بن جائیں۔تنظیم ساحل کے سینئر پروگرام آفیسر میڈیا ممتاز گوہر نے کہا کہ پچھلے دس سال کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز نہ ہونے کے برابر رپورٹ ہوتے ہیں، 2016ء میں ایسے 4139 کیس رپورٹ ہوئے اس کا مطلب ہے روزانہ گیارہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے، اس میں ایسے کیس بھی شامل کرلیے جائیں جو رپورٹ نہیں ہوئے تو کیسوں کی تعداد دگنی تگنی ہوجائے گی۔ ممتاز گوہر نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پورے پاکستا ن میں ہورہے ہیں، دس سالہ ریکارڈ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں پنجاب پہلے نمبر پر جبکہ سندھ دوسرے نمبر رہتا ہے، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے، 2015ء میں قصور میں 285بچوں کا جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آیا، اس کیس کو ہمیں ٹیسٹ کیس بنانا تھا لیکن اسے مذاق بنادیا گیا، اس وقت بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 451کیسوں کے ساتھ قصور ڈسٹرکٹ ریٹنگ میں ٹاپ پر تھا، اس سال قصور میں زیادتی کے بعد بچوں کو مارنے کے بارہ کیسز سامنے آئے ہیں، ان میں سات لڑکیوں اور پانچ لڑکوں کو نشانہ بنایا گیا، زینب کیس کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ان واقعات کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ ممتاز گوہر کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا ان چیزوں کو زیادہ فوکس کرتا ہے جن کی اہمیت نہیں ہوتی ہے، زینب کے علاوہ باقی گیارہ بچوں سے زیادتی کے واقعات اس وقت سامنے آئے ہوں گے جب میڈیا عمران خان کی شادی یا مجھے کیوں نکالا والے معاملات میں لگا ہوگا اسی لئے انہیں میڈیا پر وہ توجہ نہیں ملی۔ 

تازہ ترین