رہنما موقع پرست نہیں ہوتے۔برے حالات میں بھی وہ قوم کو پژمردگی کی بجائے امید اور امنگ دیتے ہیں۔ہمارے رہنماو ادارے کس ڈگر پر چل نکلے ہیں،قوم کو راہ ِروشن دکھانے کی بجائے اسے اندھیرنگری کی جانب دھکیل رہے ہیں۔آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جس پر ہر ایک اپنی دکان سجا لیتا ہے۔اپنی منفعت کے لئے جعلی مصنوعات تھوک کے حساب سے بیچی جاتی ہیں۔
کوئی مقبولیت کے لئے ایسا کرتا ہے۔کسی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانا ہے۔کچھ دیوانے تو خواہ مخواہ اچھل کود کرتے ہیں۔سب سے بڑھ کر تو ہمارے ذرائع ابلاغ جو ریٹنگ کے چکر میں سب حدودپامال کر رہے ہیں۔نئے سال کے آغاز پر ہی ہمارے محترم’’تبدیلی خان‘‘نے بہت سادہ اقدام کو نہ صرف پیچیدہ بلکہ بین الاقوامی شہ سرخیاں بنا دیا۔خان کی مس ہینڈلنگ کی گرد ابھی بیٹھی نہ تھی کہ قصور میں ہوشربا واقعہ پیش آگیا۔
میری جگر گوشی زینب کیساتھ جو روح فرسا واقعہ پیش آیا اس پر لغت سے ایسے الفاظ میسر نہیں کہ میں اس درد کا اظہار کر سکوں۔
زینب کے واقعہ کو کوئی شہباز شریف کا برا طرزِ حکومت قرار دے رہا ہے۔یقیناََذمہ داری ان ہی کی بنتی ہے مگر چھاج بولے سو بولے چھلنیاں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ایک چھلنی کے صوبے میں ابھی چند ہفتے قبل ہی حوا کی بیٹی کو برہنہ کر کے سرِبازار گھمایا گیا۔دوسری چھلنی کے صوبے کے گوٹھوں میں کیا نہیں ہو رہا؟
مگر موقع پرستی کی سیاست میں اپنے گریبانوں میں کون دیکھتا ہے؟
ہم عجیب لوگ ہیں افراط و تفریط کا شکار۔
مرتکب افراد کو کچھ لوگ جنگلی قرار دے ہیں کچھ یزیدی۔ایسا کام نہ یزید کے دور میں ہوا نہ ہی جنگلوں میں ایسا ہوتا ہے۔
ایسے میں زہرہ نگاہ یاد آرہی ہیں جنہوں نے کہا تھا۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھائوں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری،سانپ،بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا!جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
سب سے بھیانک کھیل غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ موم بتی مافیا نے شروع کر دیا ہے۔
وہ نہ صرف معصوم بچوں سے زیادتی کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں بلکہ ایسے گھنائونے اقدامات کو مردوں کے معاشرے اور اسلام سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کیا انہیںنہیں معلوم کہ ہمارے پڑوس ہندوستان میں کیا ہورہا ہے۔؟
پاکستان آپ کو مہذب ملک اس لئے نظر نہیں آتا کہ یہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔
ہر واقہ میں پاکستان و اسلام کو مطعون کرنے والوں کو جواب میں ایک نہیں سینکڑوں واقعات سنائے جا سکتے ہیں جو ان کو فنڈز مہیا کرنے والے آقائوں کے ملکوں میں پیش آرہے ہیں۔
اس طبقے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ Pedophilia یعنی معصوم بچوں سے جنسی تشدد ایک بیماری ہے جس کاکسی مذہب سے تعلق ہے نہ رنگ و نسل سے۔
رواں سال10جنوری ہی کو رومانیہ میں پولیس آفیسر کے 9 سالہ معصوم بچے اور5سالہ بچی کیساتھ جنسی تشدد کے معاملے پر وہاں کے وزیر اعظمMihai Tudose اور وزیر داخلہ Carmen Dan میں ٹھن گئی ہے۔پولیس کی غیر تسلی بخش کارکردگی پر وزیر داخلہ پولیس چیف کیخلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں مگر وزیراعظم ان کی راہ میں مزاحم ہیں۔
جنوب افریقہ کے ساحل پر واقع KwaZulu-Natal میں گزشتہ سال کے اگست میں ایک ایسے ہوس پرست کو عدالت میں پیش کیا گیا جو اپنی5سالہ بیٹی سے منہ کالا کرتا رہا۔اس بدروح کے قبضے میں بیٹی کی 277عریاں تصاویر بھی تھیں۔
12فروری 1993ء کو مہذب برطانیہ کے شہر لیورپول میں 2سالہ بچے James Bulger کو مصروف شاپنگ سینٹر میں اس کی ماں کے ہاتھ سے دو10,10سالہ لڑکوں Robert Thompsonاور Jon Venablesنے چھینا وہ پر ہجوم شاپنگ سینٹر سے James Bulgerکو بھگاتے ہوئے چار کلو میٹر دور ریلوے لائن پر لے گئے۔دونوں نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بدترین تشدد کر کے قتل کر دیا۔سی سی ٹی وی کیمروں کے ریکارڈ کے باوجود فعال ترین اسکاٹ لینڈ یارڈپولیس مجرموں کودودن تک گرفتار نہ کر سکی۔2007ء میں برطانوی دارالحکومت لندن میںسترہ ماہ کے Peter ConnellyجسےBaby Pبھی کہا جاتا تھا کی موت جنسی تشدد سے ہوئی۔وہ ایک سال کا بھی نہ تھا تو جنسی بربریت کا عمل اس کے ساتھ شروع ہوا۔آٹھ ماہ اس بچے کیساتھ یہ وحشیانہ عمل ہوتا رہا۔اسکے جسم پر پچاس زخم تھے۔اس کی ماں Tracey Connelly،اس کا بوائے فرینڈ Steven Barker اور ماں کے یارکابھائی Jason Owen بچے کی موت کا سبب بنے۔25فروری 2000ء کو 8 سالہ فرانسیسی نژاد Victoria Climbi کی لندن میں اپنی آنٹی Marie-Thrse Kouao اور اس کے بوائے فرینڈ Carl Manning کے ہاتھوں بد ترین تشدد کے بعد موت واقع ہوئی۔وکٹوریہ کو چوبیس چوبیس گھنٹے رسیوں سے باندھا جاتا،سگریٹوں سے داغا جاتا، موٹر سائیکل کی چین اور ہتھوڑے سے تشدد کیا جاتا رہا۔
مغربی ممالک ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں وہاں کوئی ان کونہ عیسائیت سے جوڑتا ہے نہ ان ملکوں کو غیر مہذب قرار دیا جاتاہے۔ خود مذمتی کا شکار ہم کیسے لوگ ہیں؟جہاں ہر جاہلانہ فعل کو اسلام اور مولوی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کاش میں نوحہ گر ہوتا تو اس صورتِ حال پر کوئی نوحہ لکھتا۔