• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں صدر ٹرمپ نے ہمارے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ سن کر سر شرم و غیرت سے جھک گیا۔امریکی صدر نے ہمیں جھوٹا اوردھوکہ باز جیسے گندے الفاظ سے نوازا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے فرمایا کہ ہمیں اِفہام و تفہیم سے نرم مزاجی سے، ٹھنڈے دل سے ردّ ِ عمل کا اظہار کرنا چاہئے۔غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا دنیا میں شاید کسی اور زبان میں کوئی مترادف نہیں۔ اُردو میں ہم یہ لفظ ایک محدود مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اس میں عزّت نفس، وقار، بہادری اور اعلیٰ ترین اقدار سے وابستگی اور ان اقدار کی خاطر ہر قربانی دینے کے تصوّرات شامل ہیں۔ پرانے زمانے میں عربوں میں غیرت کے نام پر جان لی اور دی جاتی تھی اب حالات مختلف ہیں۔ محمد بن قاسم کی سندھ پر چڑھائی غیرت کے نام پر ہی ہوئی تھی۔ تاریخ اسلام ایسے غیرت و وقار کے جذبوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمیں بھی وہ جذبہ چاہئے جس کو علّامہ اقبالؒ نے خودی، حمیّت کا نام دیا ہے۔دیکھئے خودداری، غیرت وہ جذبہ اور صلاحیت ہے جو کہ قوم میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت اور تاریخی مثالیں دے کر یہ جذبہ نوجوانوں میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ یہاں عقلی دلائل کام نہیں کرتے یا تو قوم غیرت مند ہوتی ہے یا بے غیرت۔
دیکھئے غیرت اور خودداری کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بغیر کسی وجہ کے دوسروں پر چڑھ دوڑیں، قتل و غارتگری شروع کردیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کام کریں، جو تعلقات دوسروں کے ساتھ رکھیں اس میں خودداری، عزّت برقرار رکھیں، مفلس کی شکل اختیار کرکے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ اگر کوئی آپ کی عزّت پر ہاتھ ڈالے تو وہ ہاتھ کاٹ دیں، توڑ دیں۔آپ کو سکھوں کی غیرت مندی کی مثال یاد ہے جب اندرا گاندھی نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر فوج سے حملہ کرایا اور کئی سکھ رہنمائوں کو قتل کرادیا تو انھوں نے پہلے اندرا گاندھی کو اور پھرچن چن کر ان لوگوں کو جنھوں نے سکھوں کے قتل میں حصّہ لیا تھا جہنم رسید کردیا۔ انھوں نے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اُو ڈائر کو انگلستان جا کر قتل کردیا۔ اس نے پنجاب میں نہتے شہریوں پرگولیاں چلوائی تھیں اور لاتعداد لوگ قتل کردیئے تھے۔
اب آپ کی خدمت میں ٹرمپ کے متعصبانہ بیان اور ہمارے حکمرانوں کے ڈر اور خوف کی عکاسی کرتے ہوئے رویئے سے متعلق چند حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ٹرمپ نے کہا کہ 15 سال میں امریکہ نے پاکستان کو 33 بلین (ارب) ڈالر کی امداد دی یہ وہ امداد تھی یا قیمت تھی جس میں ایک ڈکٹیٹر نے اس ملک کی خودداری امریکہ کو فروخت کردی تھی جبکہ سرکاری اداروں نے اس 33 بلین ڈالر کی رقم پر بھی شک و شبہ کا اظہار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ 22,21 بلین ڈالر کی امداد تھی ۔ اگر آپ بفرض محال یہ قبول بھی کرلیں کہ 33 بلین ڈالر ملے تھے تو یہ بمشکل سوا دو بلین ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ اَب آپ کی خدمت میں دوسرے اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ ہمارے محب وطن پاکستانیوں نے ان پندرہ برسوں میں 157.44 بلین ڈالر پاکستان بھیجے ہیں ابھی جو 2017 ختم ہوا ہے اس میں انہوں نے 19.30 بلین ڈالر بھیجے ہیں اور آپ کو علم ہی ہے کہ ان محبان وطن سے ہمارے بعض نااہل راشی افسران کتنا ذلیل سلوک کرتے ہیں۔ جب یہ دو تین سال بعد اپنے وطن واپس آتے ہیں، چند ہفتوں کے لئے، تو ایئرپورٹ پر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے، سامان کھول کر پھینکا جاتا ہے ان کے ساتھ مجرموں کا ساسلوک کیا جاتا ہے ان کو ستا کر ان سے رشوت لی جاتی ہے اور بعض اوقات ان کے سامان میں سے قیمتی اشیاء نکالی جاتی ہیں۔اس کے برعکس جو لوگ صرف ایک سال میں 2 بلین ڈالر دیتے ہیں ان کے آگے فرشی سلام پیش کیا جاتا ہے اورغلامانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔میں نے کسی وزیر ، کسی عسکری افسر کو یہ کہتے نہیں سُنا کہ یہ اور ان کی امداد جہنم میں جائے۔ ان کی فوجی رسد کی روانگی روک دیں، کسی کو بغیر ویزا بلا تلاشی ملک میں قدم نہ رکھنے دیں۔ مگر اس کیلئے غیرت و خودداری چاہئے اور یہ چیز یہاں عنقا ہے۔امریکی فوجی امداد پر ہماری حفاظت اور خودمختاری منحصر نہیں ہے میرے محب وطن ساتھیوں اور میں نے اپنے ملک کو اتنا طاقتور بنادیا ہے کہ ہم اپنے اصلی دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ چین کی مدد سے ہماری فضائی اور بحری قوّت اپنی حفاظت کیلئے کافی ہے۔ بری فوج کی تمام ضروریات ملک کے اندر سے پوری ہورہی ہیں۔ مگر افسوس ان چیزوں کے باوجود اپنی جائیدادوں، املاک کی حفاظت ملکی سلامتی سے افضل ہے۔ قابل شرم ہیں ایسے حکمراں اور اہل اختیار جنہوں نے ہمیں کیوبا، شمالی کوریا اور زمبابوے سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔
ہمارے یہاں وعدہ خلافی، اور بے حیائی کا سلسلہ صدر ایوب خان کے دور سے شروع ہوا اور اس خرابی نے جڑ پکڑلی اور رفتہ رفتہ یہ تبدیل ہوکر غلامی کی شکل بن گئی۔
آئیے آپ کو کلام الٰہی کی جانب متوجہ کرتا ہوں کہ اس نے ایسے لوگوں اور اقوام کیلئے کیا تنبیہ کی ہے ۔ سورۃ ہود، آیت:59 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور یہ وہی عاد ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے انکار کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش و متکبر کے احکام کی تعمیل کی‘‘۔ اس طرح انہوں نے ہر متکبر، سرکش حکمران کے احکام کی تعمیل کی اور جہنم کے مستحق ہوئے۔ سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 16 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوتا ہے تو ہم وہاں کے صاحب اقتدار، امیر لوگوں کو اللہ کے احکام کی کھلم کھلا نافرمانی کے راستوں پر چلنے دیتے ہیں اور وہ نافرمانیاں (گناہ) کرتے رہتے ہیں اور پھر اس بستی پر عذاب کا حکم نازل ہوجاتا ہے اور ہم اس کو ہلاک کر ڈالتے ہیں‘‘۔ یہاں اللہ تعالیٰ گنہگار اور ظالم حکمرانوں کو مہلت دینے کی بات کررہا ہے اور پھر ان کے پیچھے چلنے کی پاداش میں سب کو عبرتناک سزا دینے کی۔ اور سورۃ انعام، آیت:123 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’اور اسی طرح ہم نے ہر بستی(قوم) میں اس بستی (قوم) کے بڑے بڑے (صاحب اقتدار) مجرمین بنا دیئے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے مکرو فریب کا جال پھیلاتے رہیں ۔حالانکہ وہ اپنے فریب کے جال میں خود ہی پھنستے ہیں مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں‘‘۔
آپ کے سامنے ابھی ریمنڈ ڈیوس کا کیس تازہ ہے اس نے ہمارے دو بیگناہ جوانوں کو دن دھاڑے بیچ شہر لاہور میں قتل کردیا مگر افسوس کے ہماری قوم میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اسکی گاڑی کو آگ لگا دیتا یا قتل کردیتا۔ روز بیگناہ عورتوں بچوں کو تو قتل کرنے میں ماہر ہیں مگر قاتل کو شان و شوکت و عزّت سے باہر بھیج دیا۔ آپ نے ابھی ڈاکٹر عشرت العباد کی زبانی مشرف کی دبئی روانگی کا قصّہ سنا ہے۔ ہماری پوری قیادت پوری تندہی سے مشرف کو باعزت روانہ کرنے میں مشغول تھی۔ حکومت مجرم ہے کہ اس نے مشرف کو روانہ کرنے میں اعانت کی اور اب وہ دبئی سے روز ہمیں برا بھلا کہہ رہا ہے۔آخر میں آپ کی خدمت میں علامہ اقبال کا ایک شعر ان سے معذرت کے ساتھ کچھ تبدیلی سے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اب ضرب المثل بن چکا ہے۔ یہ تیموریوں پر لکھا گیا تھا مگر ان سے زیادہ ہمارے حالات پر صادق آتا ہے۔ بانگ درا میں غلام قادر روہیلہ نامی نظم کا وہ شعر بار بار یاد آتا ہے۔
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیّت نام ہے جس کا گئی اس قوم کے دل سے
انسان کے اخلاقی کردار کے دو پہلو ایسے ہیں جومنافقت اور بے حیائی کہلاتے ہیں۔ منافقت یعنی قول و عمل میں تضاد، کھلے عام دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، اپنے پر بھروسہ کرنے والوں کو دھوکا دینا، یہ سب ، منافقت کی بدترین مثالیں ہیں۔ حیاء غیرت سے بھی اعلیٰ ایک شریفانہ جذبہ ہے جو انسانی شرافت کی روح ہے۔ جب حیاء رخصت ہوجائے تو ایسی ہی کیفیت ہوجاتی ہے جیسے کسی دوڑتی ہوئی گاڑی کا ٹائی راڈ کھل جائے اس کے بعد گاڑی کسی بھی سمت جاکر ٹکرا سکتی ہے۔ اسی لئے حضورؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں حیاء باقی نہ رہے تو پھر جو جی چاہے کرو‘‘۔
(نوٹ) عوام کو یہ بات یاد ہے کہ بھٹو صاحب کے دور سے افغان جنگ تک تقریباً 10برس تک ہماری امداد بند رہی اور نہ ہی ہم بھوکے مرے اور نہ ہی کشکول لئے پھرتے پھرے۔ پھر 1991 ءسے 2001 ءتک ہماری امداد بند رہی اور ہماری حالت میں رتی برابر فرق نہ پڑا بلکہ ہم آج اس زمانے سے کہیں بہتر حالات میں تھے۔ نہ ہی اتنے مقروض تھے اور نہ ہی کوئی ہمیں ٹرمپ جیسے انداز میں مخاطب کرنے کی جرأت کرسکتا تھا۔

تازہ ترین