انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے کہ اب ہزاروں میل دور بیٹھے شخص سے بڑی سکرین پر اس طرح گفتگو ہوتی ہے جیسے ”آمنے سامنے“ بیٹھے ہوں۔ منہاج القرآن کے قاضی فیض کی جانب سے جمعرات کو ایک عیدملن عشائیہ کی دعوت موصول ہوئی اور کہا گیا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری براہ راست بات بھی کریں گے۔ میری ڈاکٹر صاحب سے دیرینہ نیازمندی ہے اور ان کے استاد گرامی عم محترم ڈاکٹر برہان الدین فاروقی کے حوالے سے ایک قریبی تعلق بھی ہے۔ ڈاکٹر فاروقی معروف فلسفی اور استاد تو تھے ہی علی گڑھ پاکستان سکیم کے محرکین میں بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری دو ڈھائی سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے حوالے سے دسمبر 2010ء میں انہوں نے مفصل ومستند فتویٰ جاری کیا۔ 450صفحات پر مشتمل اردو اور انگریزی میں اس کتاب کی لندن میں افتتاحی تقریب ہوئی۔ دہشت گردی اور خودکش حملوں کے بارے میں مدلل اور تفصیلاً لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ فعل ہر صورت حرام ہے۔ اس کا مرتکب مسلمان ہی نہیں انسان بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کتاب میں امریکہ اور یورپ میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کے حوالے سے اسلام کے خلاف جو ناپاک پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا اس کا بھی بھرپور جواب دیا گیا اور کہا گیا کہ اسلام میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ اس فتویٰ کو امریکہ اور مغرب میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ دنوں وطن واپسی کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ نومبر کے پہلے ہفتہ میں آئیں گے۔ لیکن اب انہوں نے واپسی کی تاریخ میں کچھ ردوبدل کر دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے اس سے ہر ایک کو سو فیصد اتفاق ہے کہ صرف انتخابات جمہوریت نہیں ہوتے۔ جمہوریت ایک نظام اور سائنس کا نام ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نہ مکمل جمہوریت ہے اور نہ ہی مکمل آمریت ہے۔ ملک کا انتخابی نظام یکطرفہ اور انتہائی ناقص ہے۔ عام آدمی الیکشن میں حصہ لینے کا تصور نہیں کر سکتا۔ سردار، وڈیرے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سسٹم میں انتخابات کا ٹھپہ تو لگ جاتا ہے مگر جمہوری سسٹم نافذ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان اس وقت جو ”محاذ آرائی“ ہے ساری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا میں ہر ملک میں اس کے حالات اور معاشرتی روایات کے مطابق جمہوریت نافذ ہے اور پاکستان میں بھی ملکی حالات اور سماجی و معاشرتی روایات کے مطابق جمہوریت قائم کی جائے۔
انہوں نے زور دے کر بڑے اصرار سے یہ اعلان کیا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں ،وہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور نہ ہی کسی سیاسی عہدہ کے امیدوار ہیں۔ وہ تو صرف ایک عالم دین کی حیثیت سے قوم کوایک گائیڈ لائن ، ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔ تین گھنٹہ کی اس نشست میں سوال و جواب بھی ہوئے۔ موجود صحافیوں نے مفید مشورے بھی دیئے جبکہ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ تین یا چار سال کی مدت کے لئے ملک میں صاف ستھرے دماغ کے افراد پر مشتمل ایک نگران حکومت قائم کی جائے جو الیکٹرول سسٹم، معاشی و معاشرتی نظام میں اصلاحات کرے، احتساب کا صاف و شفاف نظام قائم کیا جائے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ آئین کے اندر رہ کر کیا جا سکتا ہے جبکہ نگران حکومت میں ہر طبقہ اور شعبہ کے ایسے نامور ماہرین شامل ہوں گے جن کی دیانت و امانت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا دیکھی ”میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں بہترین ٹیلنٹ موجود ہے صرف حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے اور ملک میں اس طرح کی سوچ نہ صرف موجود ہے بلکہ ایسی نگران حکومت کے قیام کے بارے میں ”لاؤڈ تھنکنگ‘ ‘ بھی کی جاتی رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”وہ لوگ آپ تک جا پہنچے ہیں“ تو ڈاکٹر صاحب نے دوٹوک الفاظ میں تردید کی اور کہا کہ مجھ سے کسی نے اس بارے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔ دو ڈھائی سال قبل مجھ سے کچھ ”ذمہ دار لوگ“ ضرور ملتے رہے ہیں لیکن وہ عام انتخابات میں حصہ لینے اور سیاست میں آنے کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ ایک نامور دانشور کا مشورہ تھا کہ دین کی جو خدمت وہ کر رہے ہیں اس کی ساری دنیا معترف ہے اس لئے وہ سیاست میں نہ آئیں ”مجھے خوف ہے کہ آپ سیاست میں آ کر اپنے اصل مقصد اور مشن سے دور ہو جائیں گے“۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ آپ اس خوف کو دل سے نکال دیں مجھے بھی اس کا احساس ہے میں سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اور بعد میں انہوں نے ملک کی سلامتی، استحکام اور دین کی سربلندی کیلئے دعا کی اور ہم سب نے ”آمین“ کہی کہ ملک قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور انشاء اللہ نہ صرف قائم و دائم رہے گا بلکہ خوب ترقی کرے گا اور ترقی بھی ایسی کہ دنیا دیکھے گی اور اس کا اعتراف بھی کرے گی۔