• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1986کے اوائل کا ذکر ہے ہم ایک دن روسیوں کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی صورتحال پر غور کر رہے تھے ۔ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کیاروس اس کے بعد گرم پانیوں کی خواہش میں پاکستان کی طرف بھی بڑھے گا؟ تبصرے بےشمار تھے اور امریکی امداد اور پروپیگنڈا کے زیراثر ’’جہاد‘‘ کے فتوے بھی۔ میں، منوبھائی، آصف علی پوتا، زرقا، قاضی سعید اور منوبھائی کے دوست کی ایک بیٹی اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ منوبھائی کہنے لگے ’’تم جانتے ہو میں تو سوشلسٹ ہوں۔ اگر روس ادھر آ بھی گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ میری تو بخشش ہو جائے گی۔ البتہ میں نے سوچا ہے کہ ان کے آنے سے پہلے اپنے نام تبدیل کرلئے جائیں۔ میرا نام منیر احمدقریشی ہے سو یہ بدل کر قریشوف ہو جائے گا۔ عابد تہامی تم اپنا نام تہاموف کرلینا، رئوف کا نام تو آسان ہے یہ روفوف ہو جائے گا۔ زرقا تمہارا نام تو پیاراسازرقانوا ہوجائے گا۔ ‘‘منوبھائی کے دوست کی بیٹی چپ نہ رہ سکی کہنے لگی ’’میرا نام بھی تو بتائیں کیا ہوگا؟‘‘ کہنے لگے ’’تمہارا نام سب سے آسان ہے، بے وقوف‘‘
ایسے ہی تھے منو بھائی۔ چنچل، شرارتی، اٹکتے لہجے میں درفنطنی چھوڑنے والے۔ اب آپ مجھ سے درفنطنی کا مطلب نہ پوچھ لیں۔ دراصل یہ لفظ بھی بے شمار دوسرے لفظوں کی طرح ان کی ہی اختراع ہے۔ کسی کوگالی دینی ہوتی تو اسے ’’لور دے ساں‘‘ کہہ دیتے۔ مطلب پوچھنے پر کہتے ’’سور‘‘ کہہ رہا ہوں فرنچ ٹرم میں بنایا ہے۔
بے شمار ڈراموں، نظموں، کالموں کے خالق منوبھائی ایسے ہی تھے عام زندگی میں۔ انسان دوست، اور ادب سے اور خاص طور پراستعمار کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے خلاف لکھے جانے والے مزاحمتی ادب کے رسیا۔ فلسطین کے شاعر اور ادیب ہوں یا ہندوستان کے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے ادیب، سب انہیں بے حد پسند تھے۔ اسماعیل کادرے سے بھی میراتعارف انہی نے کرایا اور نجیب محفوظ سے بھی۔ پھر ہندوستان کےفلم ڈائریکٹرستیہ جیت رائے، شیام بینگل اور بنگال کی تحریکوںکے بانی ادیبوں اور سوشلسٹ ریفارمرز سے بھی۔
پاکستان میں بھی وہ سماجی انصاف چاہتے تھے۔ طبقاتی کشمکش کے دور میں اونچے طبقے کے ہاتھوں، استحصال زدہ غریب آدمی کا ساتھ دینے والے منوبھائی جب لکھتے تھے کہ؎
میں جے شاعر بنیاں پھرنا
تے اُچے اُچے دعوے گھڑ کے
نکیاں نکیاں گلاں کرناں
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
میری ساری عمراں دے دکھ
میری ساری عمراں دی بھکھ
کینکر ایس دھرتی تے آگئے
کینکر لوکی گیت بنا گئے
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
شادو لمیاں والاں والی
منوںگوری تے اکھیوں کالی
شادو دی ماں دے بوہے توں
جس ویلے جنج پرت گئی سی
شادو تے کیہہ ورت گئی سی
شادو دی ماں کیوں روئی سی
شادو ڈب کے کیوں موئی سی
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
منوبھائی نے بے شمار موضوعات پر کالم لکھے۔ ان کا ’’گریبان‘‘ معاشرے کو اپنے گریبان میںجھانک کر دیکھنے پرمجبور کرتا تھا۔ سماجی ناانصافی کے واقعات پر وہ کڑھتے رہتے تھے۔ ہولناک واقعات انہیں سُن کردیتے تھے۔ مجھے یادہے جس دن شہر میں آئی ایک نوجوان لڑکی کو ایک ٹانگے والے نے اپنے اڈے پر لے جا کربےعزت کر دیااور اس نے مینارِ پاکستان سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔منو بھائی سارادن اداس رہے۔ اس کو مخاطب کرکے انہوں نے لکھا ’’میری بیٹی!میں تم سے شرمندہ ہوں۔ میںہی نہیں اس لاہور شہر کا ہر لکھنے والا، ہر پڑھنے والاتم سے شرمندہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تم نہیں میری بیٹی گڑیا کی لاش پڑی ہے۔‘‘
پھر جب منو بھائی ایسی باتیں کرتے تھےکہ سب کو ہنسی آ جائے تو ہم حیران ہوجاتے تھے کہ اپنے اندر اتنے دکھ سمیٹے ہوئے یہ انسان کس طرح ہنس سکتاہے۔ وہ صرف معاشرے پر یا دوسرے پر نہیں ہنستے تھے خود اپنا بھی مذاق اڑاتے تھے۔ اپنی طویل نظم ؎
وال ودھا لئے رانجھے نیں
تے ٹنڈ کرالئی ہیراں نیں
وقت کےبدلنے کےساتھ طویل ہوتی گئی۔ ایک طرف تو انہوں نے لکھا کہ؎
دھیاں تن بشیراں دے گھر
پتر دو جمالے دے
پوڑیاں دے وچ قصہ مکیا
لوتھ گئی وچ نالے دے
پر اجے قیامت نئیں آئی
بینظیرکے اس دور میں جب پی پی پی کے جیالے اسے چھوڑ کر الگ ہو رہے تھے، منو بھائی نے لکھا؎
جمعہ بازار سیاست وِکدی
قیمت ودھ گئی گڈھوں (گدھے) دی
شریف لوہوار دے پتراں نئیں دی
ریڑھی لا لئی لڈوواں دی
تے بھٹو دی دھی تولن لگ پئی
بھری ترکھڑی ڈھوڈواں دی
پر اجے قیامت نئیں آئی
منو بھائی کے ڈراموں کے کردار بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ وہ خواہ ’’جھو ک سیال‘‘ کے پیرسائیں ہوں یا ’’سونا چاندی‘‘ کے مین کردار، ’’گمشدہ‘‘ کا پہلوان ہو یا ’’جزیرہ‘‘ کا جیرا، سب اصل زندگی کے کردارہیں۔ ان کو پہچان کر اپنے ڈراموں میں کردار کرانے کے لئے بھی منوبھائی اپنی مثال آپ تھے۔ نثار قادری جو ٹیکسی ڈرائیور تھےاور منوبھائی کو ٹی وی اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے، دھر لئےگئے اور پھروہ گریٹ نثار قادری بن گئے۔ جھوک سیال کے کردارمیں ’’پیرسائیں آندا تے مٹھے چول کھاندا ‘‘ کینٹین پر چائے پلوانے والا تھا۔ اس کا لہجہ انہیں اتنا پسند آیا کہ پھر اسی سے وہ کردار کروایا۔
منوبھائی سے جڑی یادیں بے شمار ہیں۔ ان کو یاد کرکے آنکھیں بھر آتی ہیں لیکن ’’جزیرہ‘‘ میں ان ہی کا ایک کردار جو افضال احمد نے کیا۔ اس ڈرامے کےآخر میں اس نےکہا ’’کسے نے نئیں رونا‘‘ تو یارو کسے نے نئیں رونا بس ان کی اچھی باتیں یاد کرتے رہو۔

.

تازہ ترین