کیا واقعی کوئی سپاہ انقلاب مرتب ہو رہی ہے جو ”تبدیلی“ کی فولادی شمشیر سے ”اسٹیٹس کو “ کے عفریت کا سر قلم کر دے گی؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ”اسٹیٹس کو“ کا مفہوم جانا جائے۔ میں نے مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو لغت میں "STATUS QUO"کے معنی دیکھے جو یوں ہیں۔ ”علیٰ حالہ ، علی الحال ، غیر مبدل حالت یا صورت حال، بدستور ،حسب سابق حالت“ مفہوم یہ ہے کہ اسٹیٹس کو،حالات کو جوں کا توں رکھنے اور صورت حال میں کسی بڑی تبدیلی کا راستہ روکنے کا نام ہے تاکہ سال ہا سال سے موجود طاقت ، اختیار، اقتدار اور مراعات کے مراکز کا تسلط قائم رہے۔ اس شکنجے کو توڑ کر فرسودہ سماجی ،معاشرتی ،معاشی اور سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی لانے اور پرانا چلن بدلنے کی کوشش برگ و بار نہ لا سکے ۔علامہ اقبال نے اسی ”اسٹیٹس کو “ کو طرز کہن کا نام دیتے ہوئے کہا تھا۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کی فلاسفی، اسٹیٹس کو کی قوتوں کے لئے عقیدے اور مسلک کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس عقیدے اور مسلک کی پست پر دو محرکات ہوتے ہیں۔ ایک اسٹیٹس کو سے مستفید ہونے والے طبقوں کا مفاد جسے وہ اپنی بقاء کے لئے ضروری خیال کرتے اور اس کے تحفظ کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ یہ خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ سوچ یقیناً قومی مفادات سے متصادم ہوتی ہے۔ا سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی ایک سوچ حب الوطنی اور قومی مفاد کے احساس سے پھوٹتی ہے۔ یہ طبقہ پوری نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ یہ چاہتا ہے کہ حالات ایک لگے بندھے راستے پہ چلتے رہیں۔ اگر یہ راستہ بدلنے کی کوشش کی گئی یا آئین نو کا ڈول ڈالا گیا تو سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا ۔ا سٹیٹس کو کی محافظ اس دوسری سوچ کو دراصل قومی سلامتی کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ تبدیلی کے نام پر کوئی ذرا سی لغزش ،خطرات کے در کھول دے۔
”اسٹیٹس کو“ کے مفاد پرستانہ تصور کو ضد ہے کہ جاگیردارانہ نظام پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ایسی موثر زرعی اصلاحات نہ ہو پائیں جو سیکڑوں ،ہزاروں ایکڑ زمین کے مالکان پر کوئی کاری ضرب لگائیں، زرعی پیداوار پر ٹیکس نہ لگنے پائے۔ احتساب کا کوئی کڑا اور بے لاگ نظام نہ بنے جو بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب سیاست دانوں،جرنیلوں، بیورو کریٹس، ججوں اور دیگر زور آور طبقوں کا محاسبہ کر سکے۔ ایسی بنیادی انتخابی اصلاحات نہ ہوں جن سے پیسہ نہ رکھنے والا ایک عام آدمی بھی اسمبلیوں تک پہنچ سکے اور یہ کھیل بدستور کروڑوں میں کھیلنے والے طاقت ور صاحبان دولت کے ہاتھ میں رہے،ٹیکس کے فرسودہ ڈھانچے میں ایسی اصلاحات نہ ہوں جن کے باعث کوئی شخص اپنے اثاثے ، آمدنی کے ذرائع اور کالا دھن چھپا نہ سکے ۔قانون اتنا بالادست اور اندھا نہ ہو جائے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے لگے اور اقتدار کی بارگاہوں کے مکین یا معاشرے کی اشرافیہ بھی ایک عام سے بے دست پا شخص کی طرح جوابدہ ہو،انصاف کا ایسا کڑا اور جابر نظام نہ بننے پائے جو مضبوط گردنوں کو اپنے شکنجے میں لے سکے۔ا سٹیٹس کو کے مفاد پرستانہ تصور کے محافظ یہ طبقات بڑے مضبوط ہیں۔ ،تھانہ کچہری سے لیکر قانون سازی کے اداروں تک، سب کچھ ان کی گرفت میں ہے۔
پاکستان میں فوج کو بھی اسٹیٹس کو کا انتہائی طاقت ور اور پرجوش نگہبان خیال کیا جاتا ہے۔ اس نگہبانی کا ایک پہلو تو کسی حد تک ادارہ جاتی مفاد سے وابستہ ہے۔ فوج کے کاروباری مفادات کا دائرہ صنعتوں اور کارخانوں سے آگے نکل کر زمینوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں تک پھیل چکا ہے۔ ان مفادات کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ فوج کسی ایسی جوہری تبدیلی کو راہ نہ دے جو فوج کے کاروباری دائرے پر نگاہ بد ڈالے۔ فوج برسوں کی اس روایت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ اسے مطلوبہ بجٹ اس کی اپنی ترجیحات کے مطابق ملتا رہے۔ وہ اس بجٹ کو پارلیمینٹ کی نگاہ باریک بیں سے بھی دور رکھنے کی خواہش مند ہے۔ وہ اس امر کی اجازت دینے کیلئے بھی تیار نہیں کہ احتساب کے کسی قومی ادارے کے لمبے ہاتھ اس تک بھی پہنچیں۔ وہ اپنی اس روایت کو بھی قائم رکھنا چاہتی ہے کہ آئین شکنی کرنے والے فوجی ڈکٹیٹرز کو کبھی بھی عدالتی کٹہرے میں نہ لایا جا سکے۔ پرویز مشرف کی گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصتی ،اس کے غیر آئینی اقدامات کو انڈیمنٹی دینے کی کوشش اور کسی بھی دستوری شکنجے سے اس کا دفاع، اسی سوچ کے مظہر ہیں۔
”اسٹیٹس کو“ کے تحفظ کے لئے پرجوش اسٹیبلشمنٹ کے دل و دماغ میں یہ خیال بھی رچ بس گیا ہے کہ کوئی دوسرا طبقہ ، حب الوطنی اور قومی سلامتی کے حوالے سے اس کے ہم پلہ نہیں۔ کسی نہ کسی طور یہ سوچ بھی جڑ پکڑ گئی ہے کہ سیاست دان بالعموم قابل اعتماد نہیں اور وہ قومی سلامتی کے تقاضوں سے کماحقہ بے بہرہ بھی ہیں ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ خارجہ پالیسی، بالخصوص افغانستان اور بھارت کے حوالے سے زبردست حساسیت رکھتی ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات کو وہ اپنے مخصوص دائرہ فکر سے بال برابر باہر نہیں جانے دیتی۔ اگر کسی سیاست دان نے متعین دائرے سے ادھر ادھر ہونے کی کوشش کی تو اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اب امریکہ سے تعلقات میں بھی فوج کا عمل دخل بڑھ گیا۔ بتیس سال براہ راست حکمرانی کرنے اور اپنے زیر اثر ایجنسیوں کے زور پر سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہونے کے باعث سیاست، اسٹیبلشمنٹ کا خصوصی میدان بن گیا ہے اور وہ ”حب الوطنی“ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی مرضی کے حکمران چننے کا حساس معاملہ، عوام الناس پر چھوڑنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں۔ سیاسی امور کے حوالے سے ایک بالا دست کردار، اسٹیبلشمنٹ کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے اور بھارت یا دوسرے مسلمہ جمہوری ممالک کی طرح وہ سختی کے ساتھ اپنی حدوں میں رہنے پر آمادہ نہیں۔
یہ ہے ”اسٹیٹس کو“ کا وہ جال جس میں ہم الجھے ہوئے ہیں اور جسے توڑ کر صحیح معنوں میں سلطانی جمہور کے تقاضوں کے مطابق ایک تازہ دم، روشن، متحرک اور انقلاب آفریں نظام لانا خاصا مشکل ہو گیا ہے ۔ اقتدار کی منزلوں پہ نگاہ رکھنے والے اہل سیاست کے لئے بھی ناگزیر سا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ناآسودہ آرزوؤں کی تکمیل کے لئے، ”اسٹیٹس کو“ کی محافظ، سدا بہار اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل کریں ۔انہیں نعرے بھی اسٹیبلشمنٹ کی فیکٹری ہی سے ملتے ہیں کبھی اسلامی نظام ،کبھی کرش انڈیا ،کبھی امریکہ مردہ باد اور کبھی انقلاب۔ اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی بولی میں دراصل اسٹیبلشمنٹ کی امنگوں کے عین مطابق ”اسٹیٹس کو“ کی کھیتی میں کھاد ڈال رہے ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے بلند بانگ انقلابی نعروں کو پٹواری اور تھانیدار تک محدود کر لیتا ہے یا اس کی گالیاں صرف اپنے قبیلہ سیاست کے لئے وقف ہو کے رہ جاتی ہیں اور وہ سال ہا سال سے پنجے گاڑے ”اسٹیٹس کو“ کے مذکورہ بالا اجزا کا تذکر ہ کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے تو جان لیجئے کہ وہ کس کھونٹے سے بندھا ہے اور کون سی تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ اور اگر اس کی سپاہ انقلاب میں ،حد نظر تک اسٹیبلشمنٹ کے نامور اور معروف کھلاڑی تبدیلی کے پرچم اٹھائے دکھائی دینے لگیں تو جان جایئے کہ پرانے مداریوں کا یہ نیا کھیل ،کسی تبدیلی کیلئے نہیں ،اسٹیٹس کو، کے فولادی قلعے کی مزید مضبوطی و استواری کے لئے ہے۔