• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر میں نے کئی آرٹیکلز لکھے ہیں۔ میرا گزشتہ کالم ’’پاکستان کے قرضوں میں ناقابل برداشت اضافہ‘‘ کو قارئین نے نہایت پسند کیا اور ای میلز سے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے نیا کالم لکھنے کی درخواست کی۔ معروف اقتصادی ماہر اور سابق وزیر تجارت ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے بقول صرف ایک سال 2016-17ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور بیرونی قرضے 83 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 3 ارب ڈالر، پیرس کلب میں شامل ممالک نے 5 ارب ڈالر اور چین نے اپنے تجارتی بینکوں کے ذریعے سی پیک کے مختلف منصوبوں کیلئے اب تک 1.6 ارب ڈالر فراہم کئے ہیں جس سے 6.5 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی گئی اور باقی 3.1 ارب ڈالر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ادا کئے گئے۔ ملکی ایکسپورٹس جو زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہیں، 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ بیرونی ذخائر کو بڑھانے کیلئے مسلم لیگ (ن) حکومت نے گزشتہ 4 برسوں میں مجموعی طور پر ریکارڈ 42.6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لئے جس میں آئی ایم ایف سے ملنے والے 6.2 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 6.54 ارب ڈالر کے قرضے بھی شامل ہیں۔
حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھاکر مصنوعی طور پر روپے کی قدر مستحکم رکھی لیکن اس کے نتیجے میں ملکی ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئیں جبکہ امپورٹس ریکارڈ اضافے سے 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور حکومت کو 30 ارب ڈالر سالانہ سے زائد کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دبائو ہے۔حال ہی میں حکومت نے کمرشل بینکوں سے جولائی سے ستمبر 2017ء میں 703 ملین ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے لئے ہیں۔ اکنامک افیئر ڈویژن کے مطابق حکومت کا 2017-18ء میں کمرشل بینکوں سے ایک ارب ڈالر کے قرضے لینے کا پروگرام ہے جس میں سے اب تک 178ملین ڈالر سٹی بینک، 450 ملین ڈالر کریڈٹ سوئس (یونائیٹڈ بینک، الائیڈ بینک کنسوریشم) اور دیگر بینکوں سے 205 ملین ڈالر کے قرضے لئے جاچکے ہیں۔ EDA کے مطابق موجودہ حکومت نے 2013-14ء میں کمرشل بینکوں سے 1.4ارب ڈالر اور 2015-16ء میں 4.3 ارب ڈالر کے قرضے لئے تھے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مالی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 14 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے حکومت کیلئے نئے قرضے لینا ناگزیر ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون (Fiscal Responsibility Debt Limitation Act 2005) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے قرضوں کے علاوہ گلوبل کیپٹل مارکیٹ میں 2 بلین ڈالر کے یورو بانڈ اور 2.5 بلین ڈالر کے سکوک بانڈز بھی جاری کئے ہیں جن کی ادائیگیاں 2017، 2019ء، 2025ء اور 2036ء میں ہیں۔ ان میں 750 ملین ڈالر کا 6.18 فیصد شرح منافع 2017ء میں، ایک ارب ڈالر کا 6.75 فیصد شرح منافع اپریل 2019ء میں، 500 ملین ڈالر کا 8.25 فیصد شرح منافع 30 ستمبر 2025ء میں اور 500 ملین ڈالر کا 7.875 فیصد شرح منافع 31 دسمبر 2036ء میں واجب الادا ہیں۔ زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے رواں مالی سال حکومت نے 2.5 ارب ڈالر کے 5 سالہ (5.625 فیصد شرح منافع) اور 10 سالہ (6.875 فیصد شرح منافع) یورو اور سکوک بانڈز کا اجراء کیا ہے اور ایک ارب ڈالر کے مزید بانڈز کے اجرا کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے اپنے موٹرویز گروی رکھے ہیں۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1951ء سے 1955ء تک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121ملین ڈالر تھے تاہم 1969ء میں یہ قرضے بڑھ کر 2.7 ارب ڈالر اور 1971ء میں 3 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 1977ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3 ارب ڈالر ہوگئے جس کے بعد بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ء میں یہ قرضے بڑھ کر 21.9 ارب ڈالر جبکہ 2000ء میں 35.6 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ء تک 72.98 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق حکومت نے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے مختصر اور طویل المیعاد حکمت عملیاں بناکر انہیں قرضوں کے حد کے قانون (FRDLA) ترمیمی ایکٹ 2005 کا حصہ بنایا ہے جس کے تحت جولائی 2018-24ء تک ہر سال ملکی قرضوں کو 0.5 فیصد کم کیا جائے گا جس کے بعد 2025-33ء تک ہر سال قرضوں کو 0.75 فیصد کم کیا جاتا رہے گا اور اس طرح پاکستان کے مجموعی قرضے جی ڈی پی کا موجودہ 61.6 فیصد سے کم ہوکر 50 فیصد تک ہوسکتے ہیں جو بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
حکومت کو 2022ء تک تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2017-18ء میں 6 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں ہیں جس میں سے 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے اور آئندہ 6 مہینے میں 3.6 ارب ڈالر کی مزید ادائیگی کرنا باقی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں قرضوں کا حجم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ان کی ادائیگی کیلئے قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ قرضے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کیلئے لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ان کی جی ڈی پی کے 80 سے 100 فیصد تک ہے حتیٰ کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک مصر، سری لنکا اور بھارت کے قرضے اُن کی جی ڈی پی کے 61 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مثلاً 2017ء میں مصر کے قرضے جی ڈی پی کے 93.6 فیصد، سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کے 79.5 فیصد اور بھارت کے قرضے جی ڈی پی کے 67.7 فیصد ہیں۔ اگر یہ قرضے ڈیمز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جارہے ہیں اور مکمل ہونے کے بعد منصوبوں سے ہی قرضوں کی ادائیگی ہوسکے تو یہ قرضے ملکی مفاد میں ہیں لیکن ہمارے ہاں قرضے کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں نہ کہ معاشی ترقی اور تیز جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500 ارب روپے کے ریونیو میں سے 1482 ارب روپے (42.36 فیصد)قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے۔ دوسرے نمبر پر 775.86 ارب روپے دفاعی اخراجات اور تیسرے نمبر پر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4 ارب روپے سود ادا کئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46,000 روپے، 2013ء میں 61,000 روپے اور آج ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان قرضوں کیلئے ہم نے اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے ترجیحاواپس کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔

تازہ ترین