• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے بہت سے قارئین کی خواہش تھی کہ بودی شاہ کی باتیں بتائی جائیں، کچھ نے تو فون کر کے کہا کہ آپ بودی شاہ سے کیوں نہیں ملتے؟ ان سب کی خواہش گزشتہ روز پوری ہوگئی۔ بودی شاہ طویل عرصے کے بعد میرے پاس آیا، آپ کو تو پتا ہے کہ میں بودی شاہ کا بہت احترام کرتا ہوں، اسی احترام کی وجہ سے تو بودی شاہ کے نخرے بڑھتے جارہے ہیں، موسم سرما کے باعث میں آج کل دو تین گھنٹے دھوپ میں بیٹھتا ہوں، میرے بہت سے پیارے پاکستانی دھوپ میں بیٹھنا گناہ سمجھتے ہیں جبکہ میں دھوپ کو پاکستانیوں کیلئے ایک نعمت خداوندی سمجھتا ہوں، آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ جن ملکوں میں دھوپ نہیں ہے، وہ کس قدر مشکلات کا شکار ہیں، وہاں جسمانی بیماریاں کتنی ہیں، وہاں کے لوگ دھوپ کیلئے کتنا ترستے ہیں اس کا اندازہ احمد فراز کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو انہوںنے ناروے سے آتے ہوئے کہا تھا کہ؎
میں برف برف رتوں میں چلا تو اس نے کہا
پلٹ کے آنا تو کشتی میں دھوپ بھر لانا
خیر تذکرہ تو بودی شاہ کی آمد کا ہورہا تھا، دھوپ کا ذکر ایسے ہی چھڑ گیا، میری وجہ سے بودی شاہ کو بھی دھوپ میں بیٹھنا پڑا، اس سارے منظر پر وہ بڑا خوش تھا، چونکہ شاہ صاحب ذرا پرانے آدمی ہیں اور پرانے آدمیوں کو سردیوں کی دھوپ سے خاص لگائو ہے۔ بودی شاہ نے دھوپ میں کرسی سنبھالتے ہی پوچھنا شروع کردیا کہ حقہ کدھر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ شاہ جی وہ ملازم تیار کررہا ہے۔ میری اس بات پر بودی شاہ کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا کہ ’’تمہیں پتہ نہیں تھا کہ میں آرہا ہوں، تمہیں حقہ تو تیار کروانا چاہئے تھا، مالٹے دھوپ میں رکھنے چاہئیں تھے، ہاں البتہ میرے آنے پر چائے تیار کروائی جاتی‘‘ میں نے عرض کیا کہ شاہ جی ایک ملازم حقہ تیار کررہا ہے، دوسرا آپ کے لئے چائے لا رہا ہے۔ میری اس یقین دہانی کے بعد بودی شاہ فرمانے لگے۔ ’’تو پانی کون لائے گا، پتہ نہیں کب چائے آئے گی، کب حقہ آئے گا؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ شاہ صاحب! جو چائے لا رہا ہے وہی چائے کے ساتھ پانی لائے گا، دوسرا حقہ لا رہا ہے ابھی تو آپ کو آئے ہوئے ڈیڑھ منٹ ہوا ہے، تھوڑا سا صبر کر لیں، مجھے تو آج کل ویسے بھی پیروں اور پیرنیوں پر حیرت ہورہی ہے۔ میرے اس جملے کے بعد بودی شاہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا اور کہنے لگا۔ ’’میں آپ کو بتا دوں کہ میں کوئی گدی نشین نہیں ہوں، آج کل کے گدی نشین تو ایشوز کو اٹھاتے ہیں اور پھر مفادات کے تحت ختم کردیتے ہیں، آج میں تمہارے سامنے پاکستانی لوگوں کے لئے تقریر کروں گا کیونکہ پاکستانی لوگوں کو ہدایت کرنے والے لوگ ختم ہوتے جارہے ہیں اور اب تو کوئی ہدایت سنتا بھی نہیں، رہنما، راہزن بن جائیں تو یہی ہوتا ہے‘‘۔
خواتین و حضرات! اب منظر یہ ہے کہ چائے آ چکی ہے، حقہ بھی آچکا ہے، بودی شاہ حقے کے کش لے رہا ہے اور ساتھ ساتھ میرے سمیت آپ سے مخاطب ہے تو لیجئے بودی شاہ کا خطاب سنیئے ’’اے پیارے لوگو!
اے پاکستانی لوگو!
تم میں سے کچھ لوگوں کی حرکتیں ایسی ہیں کہ اخلاقیات کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، تمہارا معاشرہ کیا ہے، تم کس طرح کے لوگ ہو، تمہارے معاشرے میں ایسے لوگ کیسے پلتے رہے، یہ ظلم کا راج کیسے قائم ہوا، یہاں ناانصافیاں کیسے شروع ہوئیں، یہاں ادارے برباد کیسے ہوئے، یہ ترقی کرتا ہوا ملک تنزلی کی طرف کیسے گیا، یہاں اندھے قتل کیوں ہوتے ہیں، یہاں کے شہروں کی گلیوں سے بچیاں کیوں غائب ہوتی ہیں، یہاں کوڑے کے ڈھیروں پر انسانی لاشیں کیوں ہوتی ہیں، یہاں سرکاری افسروں کے اخراجات تنخواہوں سے زیادہ کیوں ہیں، یہاں تعلیمی اداروں میں جھگڑے کیوں ہوتے ہیں، یہاں چوری ڈاکے کا رواج کیوں ہے، یہاں چیزوں میں ملاوٹ کیوں ہے، یہاں بھوک، ہوس اور پیاس میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے،یہاں کیا چکر ہے کہ یہاں ملکی ادارے نقصان میں اور حکمرانوں کے ادارے فائدے میں کیوں جارہے ہیں؟ یہاں لوگوں کے نام پر ووٹ لے کر لوگوں کو ذلیل کیوں کیا جاتا ہے، یہاں دن دیہاڑے ایک شہر میں فیکٹری کو آگ لگا کر ڈھائی سو افراد جلا دیئے جاتے ہیں اور ایک دوسرے شہر میں چودہ افراد کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یہاں کوئی ایک رائو انوار نہیں، یہاں ہر شہر میں کوئی نہ کوئی رائو انوار ہے، یہاں کے رائو انواروں کو تحفظ دینے والے بڑے بڑے سیاستدان اور بڑے بڑے بزنس مین ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ان تمام باتوں میں کیوں کی تکرار کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرو۔
اے پاکستانی لوگو!
یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ تم نے حرام، حلال میں تمیز ختم کردی، تمہیں دولت کی ہوس نے اندھا کردیا، تم اور تمہاری اولادیں جب حرام رزق کھائیں گے تو تمہاری دعائوں میں اثر کہاں سے آئے گا، تمہارا تاجر سارا سال ملاوٹ کرتا ہے، کوئی کم تولتا ہے تو کوئی مہنگے دام لے کر ناجائز منافع کماتا ہے، کوئی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور پھر رمضان کا آخری عشرہ مکہ اور مدینہ میں بیوی بچوں سمیت گزارتا ہے، کیا اس کا یہ عمل درست ہے، قطعاً نہیں، کیونکہ اس نے سارا سال انسانوں سے ظلم کیا، تمہارے معاشرے میں کچھ لوگ مبینہ طور پر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہر وقت دولت کے چکر میں رہتے ہیں، جس قوم کے مذہبی رہنمائوں کا یہ حال ہو، وہاں اخلاق نام کی چیز ناپید ہو جاتی ہے، یہاں ذکر خدا، ذکر رسولؐ اور ذکر حسینؓ بیچ دیا جاتا ہے، ایسا کرنے والے لوگ آپ کی کیا رہنمائی کریں گے؟
اے پیارے لوگو!
تمہارے افسران، حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے سب کچھ کر گزرتے ہیں، ظلم کرتے ہیں، انہیں خدا کا کوئی خوف نہیں، انہیں ترقیاں چاہئیں، انہیں اچھی پوسٹ چاہئے، ان میں ضمیر نام کی چیز غائب ہے۔
اے لوگو!
بہت سے میڈیا اہلکاروں کی جائیدادیں ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں، میڈیا کے بہت سے لوگ خدا کی بجائے حکمرانوں کو خوش کرتے ہیں، اس خوشی کے لئے جھوٹ لکھتے، جھوٹ بولتے ہیں، اپنے کام میں ملاوٹ کرتے ہیں، یہی حال تمہارے اساتذہ کا ہے جنہوں نے تعلیم کو تجارت بنا دیا ہے، آج اداروں میں تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ تجارت ہوتی ہے، بہت سے تعلیمی ادارے منشیات کے اڈے بنے ہوئے ہیں، اخلاقیات کا درس دینے والے نہیں رہے، کوئی سوشل ٹریننگ کا پروگرام ہی نہیں ہے۔
اے پیارے پاکستانی لوگو!
تم جن کو ووٹ دیتے ہو، وہی تو ظلم کرتے ہیں، وہی تو لوٹ مار کا سامان کرتے ہیں، اب لوٹ مار سے آگے غداری کی باتیں بھی کرتے ہیں، پرانے غداروں کے نام لے کر نئے غدار بننے کی کوشش کررہے ہیں، تمہارے مذہبی اور سیاسی رہنما جھوٹ بولتے ہیں اور یاد رکھو جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے۔
فروری کا مہینہ تمہارے کچھ بڑے سیاستدانوں کیلئے بہت برا ہوگا، کچھ ہنگامے بھی ہونے والے ہیں مگر اس کے بعد ملک ٹھیک ہو جائے گا، ملک ٹھیک کرنے میں بنیادی کردار عدلیہ کا ہوگا۔ حوصلہ رکھو، تمہارا خواب پورا ہونے والا ہے کہ بقول پروفیسر راشدہ ماہین ملک؎
میں راشدہؔ اس کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں
وہ خواب آنکھوں سے آگیا ہے ہتھیلیوں میں.

تازہ ترین