• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توبہ یہ ہے بددیانتی کااعتراف کرے اور سرعام معافی مانگے، چیف جسٹس

Todays Print

اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیلئے 13 درخواستوں پر ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 18ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا تھا، توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے،پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا، عوام کے سامنے بددیانتی کااعتراف کرنا ہوگا، وکیل موکل کی جانب سے توبہ نہیں کرسکتا جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے توبہ کرنے کا لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے، ہم بھی روز توبہ کرتے ہیں،غلطی تسلیم کریں گے تومعافی ہوگی۔انہوں استفسار کیا کہ کسی کو بددیانت قرار دیں تو 5؍ روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا نااہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دیکر ہوگی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ امیدوار کا غلط بیانی کرنا ووٹر سے غلط بیانی ہے۔ بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔گذشتہ روز عدالتی معاون منیر اے ملک اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت عظمیٰ سے تیاری کیلئے مہلت طلب کی تھی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے انہیں آئندہ ہفتے تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی تھی۔ جب سماعت کا آغاز ہوا تو سابق رکن اسمبلی عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آج وہ دلائل نہیں دے سکیں گے۔چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وہ سینیٹر نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے،آپ دلائل دیں۔سماعت کے دوران وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63کو ملاکر پرکھا جائے۔ انہوںنے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی ایک ٹرم کیلئے ہوگی اور نااہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا، بددیانتی بھی رہے گی جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہی جائزہ لینا ہے کہ ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا تو 5روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوجائیگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی کہے کہ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی ہے تو سب سے پہلے ڈیکلیئریشن کو تسلیم کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا کہ بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ طے یہ کرنا ہے کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ وکیل درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہے کہ آئین میں دائمی نااہلی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا۔جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے تبدیلی اس لیے نہیں کی کیونکہ مذہبی عناصر کا خوف تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا مطلب ہے پارلیمنٹ ڈر گئی تھی؟ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ آپ دیکھ لیں فیض آباد میں کیا ہوا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ توبہ کا تصور بھی موجود ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کر ہوگی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سرعام برا بھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے، پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا، عوام کے سامنے بددیانتی کااعتراف کرنا ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وکیل موکل کی جانب سے توبہ نہیں کرسکتا جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے، توبہ کرنے کا لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کہتا ہے میں نے کچھ نہیں کیا میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کسی کی بات نہیں کررہا آپ کی توبہ کی بات پر اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو اپنی بے ایمانی، بددیانتی یاغلطی کی معافی مانگنا چاہیے، پھر دیکھ سکتے ہیں معافی والے کیلئے نااہلی کی مدت کتنی ہو؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم بھی روز توبہ کرتے ہیں ٗغلطی تسلیم کرینگے تومعافی ہوگی۔جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ توبہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ شرمندہ ہیں توعدالتی فیصلہ قبول کریں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ امیدوار کاغلط بیانی کرنا ووٹرز سے غلط بیانی ہوتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آتے ہیں، پاکستانی قوم ڈری ہوئی قوم نہیں اس لیے انکے منتخب نمائندے ڈرپوک نہیں ہوسکتے۔عدالت نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی جہاں سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور عدالتی معاون علی ظفر اپنے دلائل دینگے۔ بعدازاں کیس کی سماعت بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی، جہاں وکلاء اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔نمائندہ جنگ کے مطابق سردارمحمد اسلم ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں اس وقت کے قاضی نے ایک شخص کوچوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کاحکم دیا، بعد میں اس سزا کو حضرت عمرؓ نے ختم کردیا تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس کومخاطب کرتے ہوئےکہا کہ جب حضرت عمرؓجیساحکمران سزامعاف کرتاہے توپھرآپ بھی نااہلی کی سزامعاف کردیں۔

تازہ ترین