لاہور(ریاض شاکر)پاکستان میں توہین عدالت کے قانون کی اصل روح کیا ہے،کن باتوں پر عدالت کی توہین ہوتی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں توہین عدالت کا قانون کس طرح استعمال ہوتا ہے ،جنگ نے اس پر ملک کے معروف اور سینئر قانون دانوں سے بات کی ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر پیر کلیم خورشید نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کا مقصد دراصل عدالت کی مدد کرنا ہے ،یہ ایک قسم کا عدلیہ کا مددگار قانون ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا قانون بنایا گیا جو اس وقت آرڈیننس کی شکل میں موجود ہے ۔اس قانون کے تحت عدلیہ کے کام میں مداخلت کرنے اس میں رکاوٹ ڈالنے یا عدلیہ کو بدنام کرنے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے کو عدلیہ سزا سناتی ہے پاکستان میں توہین عدالت کے قانون کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور یہ قانون عدلیہ اپنے تحفظ کے لیئے شروع سے ہی استعمال کرتی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک میں توہین عدالت کے خلاف قوانین موجود ہیں اور انہیں ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کے بہت سے پہلو ہیں مگر سب سے سنگین نوعیت انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے ،یہ ایک سنگین توہین عدالت کے زمرہ میں آتی ہے تاہم دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو عدالت ایسی کسی بھی بات پر توہین عدالت لگا سکتی ہے جسے عدالت یہ سمجھے کہ اس سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ،ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں عدلیہ نے ایسےالزام پر بھی توہین عدالت کی کارروائی کی جو الزام بعد میں سچ ثابت ہوا جیسے دوسو کیس میں ایم انور بار ایٹ لا کو توہین عدالت کے تحت تا برخاست عدالت سزا سنائی گئی تھی ۔اس معاملہ میں ایم انور نے اس وقت کے گورنر جنرل کی دوسو کیس کے فیصلہ سے قبل عدالتی شخصیات سے ملاقات کا الزام لگایا تھا مگر انہیں سزا سنا دی گئی جبکہ بعد میں ایم انور کا الزام سچ ثابت ہوا ۔انہوں نے کہا کہ عام طور پر توہین عدالت کے معاملات میں عدالتیں معافی مانگنے پر معاف کر دیتی ہیں لیکن یہاں میں نہال ہاشمی کی حمائیت نہیں کررہی ،یہ الگ معاملہ ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں تاہم وہاں ان کی حیثیت ایک کتاب سے زیادہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ملکوں کے معاشرے ہمارے معاشرے جیسے نہیں ،یہاں جو کچھ ہورہا ہے ان ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے توہین عدالت کا قانون صرف کتابوں میں ہی رہتا ہے،سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہ توہین عدالت کے قانون کی اصل روح تو یہی ہے کہ جو عدالت کی توہین یا تضحیک کرے وہ اس قانون کی زد میں آئے گا اس کے بعد اگر عدالت یہ سمجھے کہ فلاں کام یا بات سے عدلیہ کی تضحیک ہوئی یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو عدالت توہین عدالت پر کارروائی عمل میں لا سکتی ہے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں توہین عدالت کا قانون موجود ہے ۔پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کی عزت و تکریم کو لازم قرار دینے کے لیئے بنتا ہے تاہم اس کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے جس طرح ماں باپ کو اپنی اولاد کی غلطیوں پر انھیں تھپڑ مارنے کا اختیار ہوتا ہے بالکل اسی طرح عدلیہ کو توہین عدالت کا قانون دے کر اختیار دیا گیا ہے تاہم اگر ماں باپ اپنی اولاد کو روزانہ ہی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزائیں دینے لگیں توپھر اس سزا کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی اور بچے بھی ڈھیٹ ہوجائیں گے اور وہ پھر بڑی غلطیاں کرنا شروع کردیں گے کیونکہ ان کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو جائے گا ۔توہین عدالت کے قانون کے استعمال میں بھی یہی اصول اپنانا چاہیئے کہ لوگوں میں خوف رہے ۔ جسٹس مجدد مرزا کا 1990کا فیصلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ توہین اور معافی لازم و ملزوم ہیں اگر کوئی معافی مانگے تو عدالت اسے فوری طور پر معاف کر دے اس کا اطلاق پہلی بار غلطی کرنے والے پر ہے تاہم جو عادی افراد ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیئے اس کے علاوہ عدالت کسی کو توہین عدالت پر سزا سناتی ہے تو اپیل کرنے پر عدالت کو سزا معطل کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ قوانین موجود ہیں ۔سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن ٰنے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کا مقصد لوگوں کوسزا دے کر جیلوں میں ڈالنا نہیں بلکہ عدالت کے تشخص کو مجروح ہونے سے بچانا ہے تاکہ عدالتیں ،ان کے فیصلے اور جج صاحبان مذاق نہ بن جائیں اس سے بچانے کے لیئے عدلیہ کو آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کا اختیار ہے تاہم بھارتی اور پاکستانی عدلیہ نے متعدد فیصلوں کے ذریعے یہ طے کیا تھا کہ توہین عدالت پر اختیار کے استعمال کو بڑی بردباری اور تحمل سے استعمال کیا جانا چاہیئے اور جہاں تک ممکن ہو ایسے معاملات پر چشم پوشی ہی اختیار کی جانی چاہیئے انھوں نے کہا کہ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں عدلیہ کی عزت وتکریم کے لیے قوانین موجود ہیں جن میں عدلیہ کی توہین کرنے والوں کو سزا دینے کا اختیا ر دیا گیا ہے،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کا مقصد انصاف کی بلا رکاوٹ فراہمی اور عدلیہ کی تکریم کو یقینی بنانا ہے دنیا بھر میں اس قسم کے قوانین موجود ہیں مگر جس طرح پاکستان میں بااثر اور بااختیار افراد عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں ،دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی مگر اس کے باوجود پاکستان کی عدلیہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے وگرنہ پہلے یہ تصور ممکن نہیں تھا کہ عوامی جلسوں اور میڈیا پر آکر عدلیہ کے خلاف بیان بازی کی جائے یہ عدلیہ کا تحمل ہی ہے کہ آج جلسوں جلوسوں میں کھلے عام عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اورمعروف قانون دان عابد حسن منٹو نے کہا ہے کہ توہین عدالت کے قانون کا اطلاق صرف خاص قسم کے کیسوں میں ہونا چاہیے، جب عدالت کے وجود اور عظمت کو شدید اندیشہ لاحق ہو، توہین عدالت قانون کا استعمال نہایت دانشمندانہ طریقے سے ہوناچاہیے، بار اور پنچ کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ ایسے واقعات پیش ہی نہ آئیں، عابد حسن منٹو نے کہا کہ عدالت کو نہال ہاشمی کو ایک سخت وارننگ دے کر چھوڑ دیا چاہیے تھا،پاکستان بار کونسل کے رکن یاسین آزاد نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون ختم کردینا چاہیے، اداروں کو اپنی عظمت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ لوگ ادارون کا احترام کریں، انہوں نے کہا کہ سیاستدانون نے پارلیمنٹ کے بارے میں نازیبا باتیں کیں تاہم اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئیسپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے کہا کہ ہاشمی نے توہیں عدالت کی اور ججز کے بارے میں نازیبا اور قابل اعتراض زبان استعمال کی، میرے خیال میں عدالت نے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے ہاشمی کو صرف ایک ماہ کی سزا سنائی حالانکہ اس کیس میں چھ ماہ تک سزا سنائی جاسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں بھی توہین عدالت کے مرتکب ملزمان سے ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ معاملہ کسی کی حمایت کرنے کا نہیں ہے۔ ایک وکیل ہونےکےعلاوہ میں پوری زندگی ایک سیاسی کارکن بھی رہاہوں۔ لہذا میں دونوں طرح سے اپنی رائے دے سکتاہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیل میں گزاراہے میں اسے سیاسی نظر سے دیکھتاہوں اور میرا مانناہےکہ اس سے فیصلے سے ملک میں پہلے سے جاری سیاسی افراتفری میں اضافہ ہوگااور اس کےدوررِس نتائج سامنے آئیں گے۔ عدالتیں تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہیئے۔ عدالت کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کسی بھی شخص کے حق میں نہیں جاتا کیونکہ بالآخراس سےصرف عدالت کوفائدہ ہوتاہےکیونکہ اس سے عدالت کیلئے لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ نہال کے مقدمے میں ایسا لگتاہے کہ عدالتی فیصلہ کسی طرح سے تعصبانہ ہے۔ انھیں اس لیے سزا دی گئی کیونکہ وہ کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ تک پہنچنےکیلئےانھوں نے پوری زندگی سخت محنت کی۔ انھیں سب سے کمزور طبقے کے لیے لڑنے کے باعث سزا دی گئی ہے۔ بنچ کے سربراہ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہاتھاکہ انھیں معافی مانگ لینی چاہیئے کیونکہ عدالتیں توہین عدالت کے مقدمات میں لوگوں کو سزادینے کے لیے نہیں ہوتیں۔ توہین عدالت کا عمل سزا میں نہیں آتا کیونکہ ہمارا دل بہت بڑا ہے ۔ انھیں معافی مانگنے کے لیے کہاگیا لیکن آج کا فیصلہ میں انھیں سیاسی طور پر بہت سخت سزا سنادی گئی اور آنے والے دنوں میں اس کے سخت نتائج سامنے آئیں گے۔ ہماری عدالتوں کا راستہ درست نہیں ہے کیونکہ بدقسمتی سے وہ پہلے دن سے ملزمان کو مجرم سمجھتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عدالتیں لوگوں کو عزت دیتی ہیں اور بدلے میں انھیں عزت ملتی ہے ۔