لاہور(نمائندہ جنگ )لاہور ہائیکورٹ نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار خورشید انور رضوی کی 3 فروری کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا اور ان کی تعیناتی کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دے کر بڑے بنچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔عدالت نے کیس کی سماعت بند کمرے میں کرنے کی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی استدعا مسترد کرتے ہوئےریمارکس دیئے کہ عدلیہ مقدس گائے نہیں،چیف جسٹس سیاہ کرے یا سفید ،انہیں کوئی نہ پوچھے ؟مسٹر جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے کیس کی سماعت کی،درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیاکہ جوڈیشل امور انجام دینے والا آفسیر رجسٹرار تعینات نہیں ہوسکتا،ہائیکورٹ کی اسٹیبلشمنٹ سے ہی کسی آفیسر کورجسٹرار تعینات کیا جانا قانون کا تقاضا ہے۔عدالت عالیہ کے رجسٹرارخورشید انور رضوی کوقبل از وقت ریٹائرمنٹ دی جانا بدنیتی پر مبنی ہے،رجسٹرار ہائیکورٹ کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے کرنا ہوتا ہےلیکن یہ قانونی تقاضا پورا نہیں کیاگیا،انہوں نے موقف اختیار کیا کہ رجسٹرار کو دیا جانے والا چار لاکھ روپے ماہانہ جوڈیشل الائونس بھی واپس لیا جائے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کو رٹ پٹیشن کے ذریعے چیلنج نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے استدعا کی کہ کیس کی سماعت بند کمرے میں کی جائے۔عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ کی درخواست کی بند کمرے میں سماعت نہیں کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت کسی کو شفاف ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا،عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدلیہ مقدس گائے نہیں، عدلیہ نے اپنی عزت خود کرانی ہے،عدالت نے روایات کے تحت ہی فیصلے کرنے ہیں، کیا چیف جسٹس سیاہ کرے یاسفید ، انہیں کوئی نہ پوچھے ؟ہر ایک کو آگے بڑھنا ہے تاکہ ملک میں احتساب اور شفافیت کا عمل آگے بڑھے،عدلیہ عوامی پیسوں پر چل رہی ہے اور عوام سب کا احتساب کر سکتے ہیں،عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ انتظامی کمیٹی کی منظوری کے بغیر رجسٹرار کی تعیناتی کیسے ہوئی،رجسٹرار نے چیف جسٹس کی جتنی خدمت کی ہے اس حساب سے انہیں فراہم کی جانے والی چار لاکھ کی مراعات بھی کم دکھائی دیتی ہیں۔عدالت نےرجسٹرار خورشید انور رضوی کی 3 فروری کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔عدالت نے درخواست قابل سماعت قرار دے کر بڑے بنچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔