لاہور(صابر شاہ) دنیا کے ہر ملک میں توہین عدالت دو قسم کی ہوتی ہے جس میں عدالتی کمرے میں قانونی حکام سے گستاخانہ یا عدم احترام پر مشتمل رویہ اختیار کرنا یا جان بوجھ کر عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا شامل ہیں۔ یہ بات ریسرچ کے دوران سامنے آئی ہے۔ توہین عدالت میں کیس کی سماعت کرنے والے جج یا ججوں سے گستاخی، نازیبا رویے سے سماعت میں رکاوٹ ڈالنا اور کوئی مواد شائع یا ٹیلی کاسٹ کرنا یا کوئی مواد ظاہر نہ کر کے منصفانہ ٹرائل کی راہ میں رکاوٹ بننا شامل ہیں۔ عشروں سے دنیا بھر میں جج توہین عدالت کے مرتکب افراد کو جرمانے یا قید کی سزا ئیں دیتے چلے آ رہے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جج کم از کم ایک وارننگ جاری کئے بغیر توہین عدالت کی کارروائی کرے۔پاکستان سمیت کچھ ملکوں کے توہین عدالت کے قوانین کا جائزہ:۔’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘ نے 4اگست 2012ء کے ایڈیشن میں رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت ایکٹ 2012ء کو غیر آئینی کالعدم قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کو 12جولائی 2012ء سے بحال کیا جائے گا۔ 12جولائی 2012ء کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سیکشن 248(1) کے تحت قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد توہین عدالت ایکٹ 2012ء نافذ کیا جس کے تحت وزیراعظم اور تمام دیگر وزراء سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کو توہین عدالت کی عدالتی کارروائیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے اس ایکٹ کے خلاف 27 ایک جیسی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی شامل تھے۔ عدالت نے 21 صفحات کے مختصر حکم میں اعلان کیا کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت قابل سماعت ہیں کیونکہ اس میں عوامی اہمیت کے بنیادی حقوق کا معاملہ شامل ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 204کو آئین کے فورتھ شیڈول کی 55 انٹری کے ساتھ پڑھا جائے تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو آرٹیکل 204کی کلاز (2) کے تحت توہین عدالت کی دی گئی تعریف کے مطابق جرم کرنے والے کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے۔ مختصر حکم میں کہاگیا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012ء کے سیکشن2 (اے) ’’جج‘‘ کی جو تعریف کرتا ہے اس میں ایسے تمام افسران آ جاتے ہیں جنہیں انصاف کی فراہمی کا منصب دیا جائے جبکہ اس کے برخلاف آرٹیکل 204(1) کے تحت عدالت سے مراد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہے۔ ایکٹ کا سیکشن 3 مکمل طور پر کالعدم ہے کیونکہ یہ آرٹیکلز 4,9,25اور 204)2)سے متصادم ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 204(2)(b)میں دی گئی توہین عدالت کے امور اور آرٹیکل 204(2)(c)کے ذیل میں دیئے گئے بعض اقدامات کو ایکٹ کے سیکشن 3 میں توہین عدالت کی دی گئی تعریف سے نکال دیا گیا ہے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ’’توہین عدالت ایکٹ 2012ء آرٹیکل 204کے کلاز 3کے تحت نافذ کیا گیا جو مقننہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ عدالتوں کے اختیارات کے استعمال کو مربوط بنانے کیلئے قانون سازی کرے اور کوئی شرط نہ لگائے اور دفاع کے لئے بھی کسی قسم کی شرط نہ لگائی جائے‘‘ عدالت نے کہا کہ ایک جج پر بہتان تراشی کر کے عدالتوں کے اختیار کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کے لئے آرٹیکل 204(2)میں لفظ’’عدالت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیکشن 3میں دی گئی تعریف آرٹیکل 63(1)(g)کے تقاضوں سے متصادم ہے جس کے مطابق اگر کسی شخص کو عدلیہ کی تضحیک کا مجرم قرار دیا اور سزا سنائی جائے تو وہ عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل ہو گا اور سیکشن 3 میں اسے ختم کر دیا گیا اور عدلیہ کو شامل کرنے کے بجائے ایک ججپرر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی کی گئی۔مختصر حکم میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 3 میں (i)سے (xi)تک شامل کی گئی شقوں کو لاگو کیا گیا جس کے تحت استثنیٰ اور دفاع کے موقعے دیئے گئے جبکہ آئین میں ایسی کوئی شقیں نہیں اور سیکشن 3کی ذیلی شق (i)کے تحت آرٹیکل 248(1)کے عوامی عہدے رکھنے والے کو استثنیٰ دیا گیا جو آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 204(2)کی خلاف ورزی ہے ، عدالت کسی استثنیٰ کے بغیر ’’کسی بھی شخص‘‘ کو توہین عدالت پر سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔مختصر حکم میں قرار دیا گیا ’’سیکشن3کی ذیلی شق(i)میں آرٹیکل 248(1)کی شمولیت آئین میں ترمیم کے مترادف ہے اور یہ کام آرٹیکلز 238 اور 239 میں دیئے گئے طریق کار پر عمل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 248(1) کسی عوامی عہدیدار کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ نہیں دیتا پس سیکشن 3 کی ذیلی شق (i)کے تحت بھی کسی عوامی عہدیدار کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا اور یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہو گی۔ فیصلے میں کہا گیا ’’ سیکشن 3کی ذیلی شقوں (i)تا (xi)میں دی گئی شرائط مبہم اور بے سروپا ہیں اور اس کا مطلب توہین عدالت کرنے والے کو فائدہ پہنچانا ہے جو عدالتوں کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا پس یہ شقیں ’’قانون کے سامنے سب برابر ہیں‘‘ کے اصول سے متصادم اور کالعدم ہیں‘‘ عدالت نے مزید فیصلہ دیا کہ سیکشن 4کے سب سیکشن 4کے تحت قبل ازیں دیئے گئے فیصلوں کا اثر ختم کرنے کے لئے فیصلہ دیا گیا اور ان بنیادوں کو ختم نہیں کیا گیا جن پر فیصلے دیئے گئے جو انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے جس کا ذکر آرٹیکل 9میں ہے اور یہ شق بھی آرٹیکل 189سے متصادم ہے اور کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سیکشن 6(2) وجود نہیں رکھتا کیونکہ سیکشن 3 کو بالکلیہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح فیصلے میں کہا گیا کہ سیکشن 6(3) توہین عدالت کی حوصلہ افزائی اور اسے بڑھاوا دیتا ہے کہ سزا پر عملدرآمد موخر کر کے اپیل، نظرثانی کی راہ اختیار کی گئی ہے جبکہ عدالت کے وقار اور احترام کا تقاضا ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب کو فوری سزا دینے کیلئے مناسب اقدام کیا جائے۔ مختصر حکم میں کہا گیا کہ ’’اس ضمن میں کسی بھی تاخیر سے ناصرف عدالتی وقار متاثر ہو گا بلکہ اس سے عدالتوں اور ان کے احکامات کے عدم احترام کا رحجان بڑھے گا۔ اس طرح یہ شق بھی آرٹیکلز 2Aاور 9 کے تحت عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک فراہمی کے اصول سے متصادم ہے‘ اس لئے کالعدم ہے‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ سیکشن 8کے تحت مقدمات کی منتقلی عدالتی اختیارات کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ سیکشن 8 کا سب سیکشن (1)برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں ’’عدالت پر بہتان تراشی‘‘ کی بجائے ’’ایک جج پر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں‘ یہ سب سیکشن بھی توہین عدالت کے ملزم کو سزا دینے کی ضرورت سے متصادم ہے جبکہ عدالت کے احترام میں تیزی سے مناسب قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک سے دوسرے جج یا بنچ کو مقدمے کی منتقلی اس عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس کا اختیار ہے جسے مقننہ کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اس لئے سیکشن 8 کا سب سیکشن 3 عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سیکشن 8 کے سب سیکشن 5کے تحت مقننہ چیف جسٹس کی فائل سے ایک کیس دوسرے سینئر جج کو منتقل کرنے کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی‘ یہ عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہو گا اور اس حوالہ سے مقننہ کی مداخلت چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے اختیار کو کم کرنے کے مترادف ہو گی، اس طرح یہ شق بھی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 10بی آرٹیکل 19میں درج آزادی اظہار کے بنیادی حق کے خلاف ہے جسے روکا جانا چاہئے۔ مزید برآں توہین عدالت اور آرٹیکل 68جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے کنڈکٹ پرپارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہو گی۔ مختصرحکم میں کہا گیا’’ آرٹیکل 270اے اے کے مطابق توہین عدالت آرڈیننس 2003ء جو 15دسمبر 2003ء کو لاگو ہوا اور 12جولائی 2012ء کے روز تک نافذ العمل رہا جب توہین عدالت ایکٹ 2012ء لاگو کیا گیا۔ سیکشن 13جو توہین عدالت ایکٹ 1976ء اور 2003ء اور 2004ء کے آرڈیننس کو منسوخ کرتا ہے اس تنسیخ کیلئے کوئی وجہ نہیں‘‘آرڈر میں مزید کہا گیا’’ اس لئے کوئی اور آئینی راستہ نہ بچنے کے باعث توہین عدالت ایکٹ 2012ء غیر آئینی ، کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹارنی جنرل فارابرٹا بنام اٹارنی جنرل فار کینیڈا (AIR(1948) PC(194)میں بیان شدہ اصول کے مطابق یہ قرار دیا جاتا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کو 12جولائی 2012ء سے بحال تصور کیا جائیگا جس روز توہین عدالت ایکٹ 2012ء نافذ کیا گیا تھا‘‘.بھارت میں توہین عدالت دو طرح کی ہیں سول توہین عدالت میں توہین عدالت ایکٹ 1971ء کے سیکشن ٹو بی کے تحت سول توہین عدالت کو کسی فیصلے‘ حکم نامے، ہدایت، آرڈر، رٹ یا کسی اور عدالتی امر کی دانستہ عدم تعمیل یا عدالتی احکام کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔کریمینل توہین عدالت کے تحت توہین عدالت ایکٹ 1971ء کے سیکشن ٹو سی سے تحت کریمینل توہین عدالت کوئی ایسی اشاعت(خواہ الفاظ جو لکھے یا بولے گئے۔ بول، یا اشارے یا کسی اور طریقے سے) جو کسی عدالت کو سیکنڈ لائز کرتی ہو یا اس طرف مائل ہو یا عدالتی اتھارٹی کو کم کرتی ہو یا اس کی طرف میلان رکھتی ہو یا پھر کسی عدالتی عمل میں مداخلت کرتی ہو یا ایسا رحجان رکھتی ہو یا کسی بھی طور پر انصاف کی فراہمی کے عمل میں مداخلت کرتی، رکاوٹ ڈالتی یا اس کی طرف مائل ہو‘ کریمنل توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔ توہین عدالت ایکٹ 1971ء کی سیکشن بی کلاز بی جو 2006ء کے ایک فیصلے میں متعارف کرائی گئی اس اقدام کے درست ہونے کا جواز پیش کرنے پر دفاع کا موقع دیتی ہے‘ اگر عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ یہ اقدام مفاد عامہ میں تھا۔انگلینڈ اور ویلز:انگلینڈ اور ویلز میں توہین عدالت قانون (توہین عدالت ایکٹ 1981ء)میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال ہے۔ جج یا مجسٹریٹ کے سامنے بدتمیزی توہین آمیز رویہ جب وہ عدالت میں ہو، ٹرائل کے عمل یا دیگر قانونی امور کو متاثر کرنیکی کوشش کو ’’براہ راست‘‘ توہین تصور کیا جاتا ہے۔براہ راست توہین با لواسطہ توہین سے نمایاں طور پر مختلف ہے جس میں کوئی شخص کسی کیخلاف توہین کی درخواست دائر کر سکتا ہے اور الزام عائد کر سکتا ہے کہ اس نے عدالت کے قانونی احکام کی دانستہ خلاف ورزی کی۔فوجداری توہین عدالت: برطانوی کرائون کورٹ کے پاس اپنی کارروائی پراس وقت توہین عدالت کی سزادینےکااختیارہے جب عدالتی حکم کونہ ماناجائے یا عدالتی کارروائی کی خلاف ورزی کی جائے۔ جب کارروائی کرنا جلد مقصود ہو تو جج(حتیٰ کے ٹرائل جج) توہین عدالت کی سزا دینےکیلئے کارروائی کرسکتاہے۔ جہاں ایسا کرنا ضروری نہ ہویا توہین عدالت بلاواسطہ طور پرکی گئی ہوتو اٹارنی جنرل مداخلت کرسکتاہےاورکراؤن پراسیکیوشن سروس اپنی جانب سےکورٹ آف جسٹس آف انگلینڈاینڈویلز کے ڈویژنل کورٹ آف دی کوئین بنچ ڈویژن کے سامنے کارروائی کا آغاز کرسکتاہے۔ مجسٹریٹ عدالتیں اعلیٰ عدالتیں نہیں ہیں لیکن انھیں توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت کارروائی کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ وہ عدالتی بے عزتی کرنےوالے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتی ہیں یاسماعت کے اختتام تک اپنی کارروائی روک سکتی ہیں۔ توہین عدالت تسلیم کیے جانےیا ثابت ہونے پر جج مجرم کوزیادہ سے زیادہ ایک ماہ قید کی سزا دے سکتاہے، اڑھائی ہزار پائونڈ جرمانہ بھی کرسکتاہےیادونوں کرسکتاہے۔ برطانوی عدالت کی مرضی کے بغیر کمرہِ عدالت میں کوئی بھی آڈیو یکارڈنگ یا تصویرلینےوالا ڈیوائس لانا توہین عدالت کےزمرے میں آتاہے۔ برطانیہ میں جب تک عدالت دستیاب ثبوتوں پر غورنہ کرلے اور یہ فیصلہ نہ کرلے کہ ’’معلومات انصاف، نیشنل سکیورٹی یا انتشار یا جرائم کوروکنےکیلئےضروری ہیں، تب تک (ایکٹ کی شق20 کے تحت) کسی بھی صحافی کا اپنا ذرائع نہ بتانا توہین عدالت میں نہیں آتا۔‘‘ برطانیہ میں سنگین توہین عدالت: توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت یہ فوجداری توہین عدالت ہےکہ کچھ ایسا شائع کردیاجائے جس سے عدالتی کارروائی متاثرہونے کا خدشہ ہوجائے۔ اس کا نفاذ وہاں ہوتا ہے جہاں کارروائی جاری ہو اور اٹارنی جنرل رہنمائی کرے کہ اس کے خیال میں توہین عدالت کب ہوئی ہے، اور یہاں قانونی رہنمائی بھی ہونی چایئے۔ یہ شق اخبارات اور میڈیا کو کوئی بھی ایسا مواد شائع کرنے سے روکتی ہے جو کسی بھی فوجداری مقدمےیا اس سے متعلقہ مقدمات کےختم ہونےاور ججز کی جانب سے فیصلہ آنےسےپہلےاس کے بارےمیں انتہائی حساس ہو۔ برطانیہ میں سول توہین عدالت: سول مقدمات میں دو طرح کی چیزیں ہیں جہاں توہین عدالت ہوسکتی ہے: طلبی کےباوجودعدالت میں پیش نہ ہونا یا عدالتی احکامات کی پیروی نہ کرنا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جاتاہے اور وہ حکم کی پیروی نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتاہے یا تحریری طورپر مذکورہ شخص کو قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا شازوناذرہی ہوتاہے کیونکہ معافی نامہ یا جرمانے کو ہی مناسب سمجھا جاتاہے۔ امریکا: امریکی قوانین کے مطابق توہین عدالت کے ایکٹ کو براہِ راست یا بالواسطہ اور سول یا فوجداری میں تقسیم کیاگیاہے۔ براہِ راست توہین عدالت کسی جج کی موجودگی میں ہوتی ہے؛ سول توہینِ عدالت ’’دھمکی آمیزاور قابلِ حل‘‘ ہے کیونکہ اس میں سزا کی مخالفت کی جاتی ہے۔ براہِ راست توہینِ عدالت جج کی موجودگی میں ہوتی ہے اور اس میں جج موقع دے سکتاہے، یا فوری طور پر پابندی عائد کرسکتاہے۔ بلااسطہ توہین عدالت: یہ کمرہ عدالت سے باہر ہوتی ہے اور یہ عدالتی حکم نہ ماننے کی صورت میں ہوتی ہے۔ سول مقدمات میں توہین عدالت کو جرم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس میں جس پارٹی کو عدالتی حکم سےفائدہ ہوتا ہے وہ عدالتی حکم کونافذ کرانے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے۔