یوں تو پوری تاریخ انسانی میں مقبول اور عوامی حمایت رکھنے والے رہنما (پاپولر لیڈرز) اپنے وقت کی بیئت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کے عتاب کا شکار رہے ہیں لیکن 20ویں صدی خصوصاً جنگ عظیم اول کے بعد پاپولر لیڈرز کو قتل کرنے کے سامراجی منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد شروع ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا میں آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ انقلابی اور جمہوری تحریکوں میں ابھار آیا اور عوام کے پاپولر لیڈرز سامنے آئے‘ جنہوں نے قوموں کو آزادی‘ خود مختاری اور سماجی انصاف کے حصول کے لئے ایک سمت مہیا کی۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی قوتوں نے اسے اپنے لئے ایک چیلنج سمجھا اور مختلف طریقوں سے پاپولر لیڈرز کو قتل کرا کے ان عوامی تحریکوں کو کچلنے یا دبانے کی کوشش کی۔ ایشیاء‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کو خاص طور پر پاپولر لیڈرز کا قبرستان بنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان براعظموں کے اکثر ترقی پذیر اور غریب ممالک میں کوئی ایسا سیاسی ڈھانچہ نہیں بن سکا ہے جو اپنے اپنے وسائل پر اپنے اختیار کو مضبوط کرتا ہو‘بالادست قوتوں کے جبر و استحصال کے خلاف ڈھال مہیا کرتا ہو اور مظلوم طبقات اور گروہوں کی داد رسی کرتا ہو۔ ان ممالک کے عوام نے اپنے پاپولر لیڈرز کی اچانک اور غیر طبعی اموات کے دکھ جھیلے اور ان سانحات نے قوموں کے رویّے تبدیل کردیئے اور اُن میں بے بسی کا احساس پیدا کردیا۔
پاکستان کے عوام نے بھی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی اولاد کے ساتھ رونما ہونے والے اندوہناک واقعات کی صورت میں عالمی سامراجی قوتوں اور اُن کے مقامی کارندوں کی وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ان بڑے صدمات میں ایک عظیم صدمہ ہے جو پچھلے64 سال میں پاکستان نے برداشت کئے ہیں کیونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی مظلومیت پر لوگوں کو بہت رونا آتا ہے۔ محترمہ نے اپنی زندگی میں جتنے دکھ جھیلے‘ ان کا تصور کرکے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک بیٹی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے مظلوم باپ کو انتہائی بے بسی کی حالت میں کوٹ لکھپت جیل کی کال کوٹھڑی میں قید تنہائی میں دیکھا‘ اُن کی پھانسی والی کربناک رات اپنی والدہ کے ساتھ روتے ہوئے گزاری اور گڑھی خدا بخش میں لاوارثوں کی طرح ان کی تدفین ہوتے دیکھی۔ انہوں نے طویل عرصے تک اپنی والدہ کی زندہ لاش کو سنبھالے رکھا۔ ایک بیوی کی حیثیت سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے شوہر سے دور رہیں اور اُن کی طویل اسیری کے دکھ سہے۔ ایک بہن کی حیثیت سے انہوں نے اپنے دو بھائیوں کی لاشوں پر ماتم کیا اور ایک ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں کے ساتھ اتنا وقت نہ گزار سکیں جو کوئی ماں گزارنا چاہتی ہے۔ ایک خاتون کی حیثیت سے انہوں نے دو بدترین فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی سفاکی کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے جھوٹے مقدمات میں عدالتوں کے تھکا دینے اور اعصاب شکن ٹرائل کا سامنا کیا اور جمہوریت کی بحالی کے لئے عوامی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ 1979ء سے27 دسمبر2007ء تک 29 سال انہوں نے ابتلا اور آزمائشوں میں گزار دیئے۔ اپنے ایک ایسے ہی ابتلا کے دور کا ذکر وہ اپنی کتاب ”مفاہمت“ میں اس طرح کرتی ہیں ”میں اپنی والدہ کی بیماری کے اس دور پر نگاہ ڈالتی ہوں جب2003ء میں وہ موت کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں اور2005ء میں اپنے شوہر کی بیماری کے اس پر نظر دوڑاتی ہوں‘ جب وہ بھی موت کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان حالات سے گزرنے میں کیسے کامیاب ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جماعت کے معاملات‘ حزب اختلاف کی دوسری سیاسی جماعتوں کے معاملات تھے‘ سفارتی برادری کے معاملات تھے‘ عدالتی مقدمات تھے‘ میڈیا کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ لیکچرز دینے پڑتے تھے اور بچوں کو سنبھالنا تھا۔ میں سفر کرتے ہوئے پریشان رہتی تھی کہ میری غیر موجودگی میں میری والدہ یا شوہر کو کچھ نہ ہوجائے۔ مجھے فون کالوں سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں یہ ان کے حوالے سے بری خبر لے کر نہ آئیں۔ میں راتوں کو سو نہیں سکتی تھی، ہلکی سی آواز پر میری آنکھ کھل جاتی یا پھر میں یہ سوچتے ہوئے رہ جاتی کہ کہیں رات کی رات میں کچھ ہو نہ گیا ہو“۔ ان کے دکھوں اور آزمائشوں کو دیکھ کر بعض لوگ بجاطور پر یہ کہتے ہیں کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مصائب جھیلے اور انتہائی ثابت قدمی اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ27 دسمبر2007ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی خبر پر پاکستان کی فضا پر غم و اندوہ کے جو بادل چھا گئے تھے وہ ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
27 دسمبر کا دن ایک مظلوم اور بہادر خاتون کی یاد دلاتا ہے جس نے کہا تھا ”ہم نے اپنی زندگیاں‘ اپنی آزادی‘ اپنی جوانی‘ اپنا ذہنی سکون سب کچھ جمہوریت کے لئے قربان کردیئے ہیں“۔ اگرچہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا سفاکانہ قتل بھی پاپولر لیڈرز کے خلاف عالمی سامراجی قوتوں اور ان کے مقامی کارندوں کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے لیکن قتل کرنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو ایک ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے جس پر یہ قوم ہمیشہ سراپا احتجاج رہے گی۔ عالمی تاریخ ان گنت اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن کچھ اندوہناک واقعات ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کے بہتے دھارے میں بھنور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا المیہ بھی ایسے المناک واقعات میں سے ایک ہے۔ وہ ایک مثالی بیٹی تھیں‘ ایک مثالی بہن تھیں‘ ایک مثالی بیوی تھیں‘ ایک مثالی ماں تھیں اور سب سے بڑھ کر ایک ایسی مثالی خاتون تھیں جن پر بڑے بڑے سورما اور بہادر لوگ فخر کریں گے۔ وہ وطن پرستی میں ”ماروی“ سے بڑا استعارہ بن گئی ہیں۔ جمہوریت اور مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد میں وہ آج دنیا بھر کے پاپولر لیڈرز کے لئے مشعل راہ ہیں اور عوام کے ساتھ انہوں نے اپنا رشتہ اپنا خون دے کر نبھایا ہے۔
آج جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے‘ پاکستان میں غیر یقینی حالات سے لوگ پریشان ہیں اور بعض حلقے جمہوریت اور جمہوری عمل کو ایک بار پھر خطرات سے دوچار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے مظلومانہ قتل کا غم تازہ ہوگیا ہے اور یہ سوال ذہنوں میں گردش کرنے لگا ہے کہ پاکستان کے عوام کو جمہوری حقوق اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لئے مزید کتنے سانحات اور صدمات برداشت کرنے پڑیں گے؟ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل ایک واقعہ تھا جو گزر گیا‘ وہ شاید حالات کا صحیح ادراک نہیں کررہے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ایک اجتماعی قومی سانحہ تھی جس کے اثرات تاریخ میں کبھی زائل نہیں ہوتے۔ 27دسمبر2007ء کو پورے پاکستان میں جس طرح سوگ اور ماتم رہا‘ اُس نے عوام کے مزاج میں رنج اور مزاحمت کے عناصر پیدا کردیئے ہیں۔ محترمہ کی شہادت پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی پر ایک کاری ضرب تھی۔ پاکستان کی غیر جمہوری قوتیں بھٹو کی سیاسی وارثت اور پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کیلئے حربے استعمال کررہی ہیں‘ یہ حربے نہ صرف ملک کے لئے بلکہ خود اُن کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ محترمہ کی شہادت پر سندھ جس کیفیت میں چلا گیا تھا وہ کیفیت دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے اور اسے محض پیپلزپارٹی کا سندھ کارڈ تصور نہ کیا جائے۔ یہ کیفیت اس سے بڑھ کر ایک حقیقت ہے۔ پنجاب‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ کشمیر‘ گلگت بلتستان اور قبائلی علاقہ جات میں بھی بھٹو خاندان کی جمہوری جدوجہد اور وفاق کے استحکام کیلئے کوششوں کے بہت اثرات ہیں۔ سانحہ27 دسمبر ہمیشہ عوام دشمن قوتوں کیلئے ایک انتباہ ہے کہ وہ جمہوریت کے خلاف سازشیں نہ کریں اور عوام دوست قوتوں کے لئے آگے بڑھتے رہنے کی ایک تحریک ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ27دسمبر اس عظیم خاتون کی المناک موت پر سوگ کا دن ہے‘ جس نے پاکستان کے وفاق‘ جمہوریت اور سماجی انصاف کے لئے اپنی جان قربان کی۔