محترمہ بینظیر بھٹو ایک عظیم انسان تھیں، ان کے دل میں تمام انسانوں کے لئے محبت اور ہمدردی کا بے مثال جذبہ موجزن تھا، غریب اور مفلوک الحال طبقات ان کی دھڑکن میں رچے بسے تھے۔ ان لوگوں کی بے بسی، مجبور زندگی، حقوق کی پامالی اور انصاف سے محرومی انہیں اشکبار کردیتی۔ بی بی حقوق العباد کی بینظیر تصویر تھیں ۔ یہ ان کی شخصیت کا اہم ترین اور خوبصورت ترین پہلو تھا، یہی وجہ تھی کہ27دسمبر2007ء کو جب انہیں شہید کیا گیا تو ہر آنکھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان کی شہادت پر سب ماتم کناں تھے اور ہر گھر میں صف ماتم بچھی تھی۔
بی بی شہید میں ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ ان کے دل میں اپنے بدترین مخالفوں کو بھی معاف کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے مخالفین کو معاف کردیا سوائے ان کے، جن کا نام انہوں نے16اکتوبر2007ء کی میل میں اپنے ممکنہ قاتلوں کے بارے میں لکھا تھا۔
بی بی شہید کے معاف کرنے کا یہ سفر اپریل 1986ء میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ انہوں نے بی بی سی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء سے انتقام لینے کے متعلق سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ” میں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے اور میں انتقام پر یقین نہیں رکھتی مجھ میں اور جنرل ضیاء میں یہی فرق ہے کہ وہ انتقام کی پالیسی پر اور میں معافی پر یقین رکھتی ہوں“۔
پاکستان کی تاریخ میں محترمہ بینظیر بھٹو کو ایسی عظیم الشان رہنما کے طور پر یاد کیا جائے گا جس نے عوام کے بنیادی اور انسانی حقوق کے لئے شاندار تحریک کی نئی داستان رقم کی۔ انہوں نے اپنے عوام کی خاطر زندگی کے بہترین سال اسیری میں کاٹے ،جلا وطنی کے دکھ جھیلے، اپریل86ء میں ملک واپس آئیں تو پھر دو سال تک گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر اپنے عوام سے رابطہ مستحکم کیا۔ وہ ایک نہتی لڑکی نہیں تھیں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے محروم عوام ان کی قوت تھے۔ اسی قوت سے خوفزدہ طاقتور حلقے ان کی کامیابی کے سفر میں حائل ہونے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
اگست2007ء کا ذکر ہے جب لندن میں خصوصی الوداعی ملاقات میں بی بی نے مجھے کہا تھا کہ ا ٓپ مجھ سے زیادہ عرصہ جئیں گے۔ بی بی کی یہ بات چند ماہ بعد سچ ثابت ہوگئی۔ دراصل میرے دل میں نامعلوم سا خوف دامن گیر تھا اور یہی خوف تھا جو27دسمبر2007ء کی شام بی بی کی شہادت کی صورت میں سامنے آگیا۔بی بی کی شخصیت بہت متاثر کن تھی، جو لوگ ان سے ایک بار مل لیتے وہ ہمیشہ کے لئے ان کے فکری پیروکار ہوجاتے۔ ابتلاء اور آزمائش کے ان گنت واقعات ایسے ہیں کہ کئی رہنماؤں نے بے وفائی کی اور پارٹی کارکن بلند حوصلہ رہے۔ بی بی نے ہر نوع کی صورتحال کا مقابلہ کیا۔ وہ دلیل سنتی تھیں لیکن غیر ضروری بحث پسند نہ کرتیں۔ انہیں جلا وطنی کے ایام میں بھی ملک کے دور دراز علاقوں اور شہروں میں رہنے والے غریب کارکنوں کا حال معلوم ہوتا تھا۔
بی بی شہید عام حالات میں بہت سادہ زندگی بسر کرتی تھیں ان کی فیملی لائف اگرچہ کٹھن تھی لیکن وہ کبھی ہمت نہ ہاری انہوں نے اپنے شوہر آصف علی زرداری کی قید کے دوران کئی محاذوں پر کام کیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی شاپنگ اور تفریح یہ سب ذمہ داریاں انہوں نے نبھائیں۔ یوں گمان ہوتا تھا وہ ایک نہیں کئی وجود رکھتی ہیں، اپنے شوہر کے لئے وہ بالکل مشرقی خاتون تھیں۔ وہ مشرقی اقدار اور خاندانی وقار کو بہت عزیز رکھتی تھیں۔
عالمی کانفرنسوں کے دوران دنیا بھر کے رہنما ان کے گرد جمع ہوجایا کرتے۔ عرب ریاستوں میں تمام حلقوں میں ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ خواتین ان کو اپنا رول ماڈل قرار دیتیں۔ ان کے ساتھ تصویریں بنواتیں۔ بی بی کی شہادت سے پاکستان ایک عالمی مرتبے کی رہنما سے محروم ہوگیا۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کا ہوا اور بہت زیادہ فائدہ پاکستان کے دشمنوں کا۔ وہ نا صرف حقیقی معنوں میں چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں بلکہ عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں۔ وہ حقوق نسواں کی سب سے بڑی علمبردار اور خواتین میں شائستگی کے شعور کی علامت تھیں۔ بی بی ان قوتوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھیں جو تہذیبوں کے تصادم کو فروغ دینا چاہتی تھیں کیونکہ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔ ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی آئینہ دار ہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ زندگی چند دن کی ہے اس میں فاصلوں کو مٹانا چاہئے اور ہر وقت مثبت انداز فکر اپنانا چاہئے۔ بی بی کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تمام دنیا سے غربت و افلاس کا خاتمہ اور اسے امن و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔
بی بی شہید جب دوسری مرتبہ طویل جلا وطنی کے بعد واپس آئیں تو ان کی مقبولیت اسی طرح اپنے عروج پر تھی اور مخالف قوتیں اسی طرح خوفزدہ۔ انہی خوفزدہ حلقوں نے اپنی شکست کا انتقام لینے کے لئے27دسمبر2007ء کو انہیں لیاقت باغ میں شہید کردیا اس کے باوجود وہ بی بی کی ہر دلعزیزی اور عوامی طاقت کو ختم نہیں کرسکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور بینظیر بھٹو شہید ایک عظیم سیاسی رہنما تھیں۔ پاکستان کے عوام ان سے والہانہ پیار کرتے ہیں۔ ان کا شمار عالمی سطح پر برصغیر کے مقبول اور ہر دلعزیز لیڈروں میں ہوتا ہے۔ یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ بی بی شہید عالمگیر حیثیت اور مقام و مرتبہ کی حامل بینظیر خاتون تھیں۔ انہوں نے پاکستان کی عوام کے حقوق کی خاطر فوجی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی، بے شمار مشکلات اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ پاکستان کی تاریخ بی بی شہید کی سیاسی کردار اور مجاہدانہ عزم و استقلال کا پرتو ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان واپسی کے خیال سے بہت خوش تھیں ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ وطن کی مٹی کی پکار پر جلد پاکستان جائیں اپنی عوام سے ملیں، والد اور بھائیوں کی قبروں پر جاکر ان کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگیں اور ان کی بے چین روح کو قرار آئے۔ شاید ان کے لاشعور میں تھا کہ وہ بھی ان کے پاس چلی جائیں گی اور ان کے بعض اقدامات اسی حقیقت کے غماز تھے۔
2007ء عجیب سال تھا بی بی شہید نے اس سال وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور یہی فیصلہ زندگی سے واپسی کا بھی سال ثابت ہوا شاید ان کا وجدان تھا کہ بی بی شہید نے21جون کے دن خلاف معمول اپنی سالگرہ نہیں منائی۔