وطن عزیز کی تاریخ جتنی پرانی ہے غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ حاصل اور جاری کرنے کا سلسلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا جو کاروبار شروع کیا گیا تھا وہ آج تک جاری ہے۔
لیاقت علی خان: 14اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں جب یہ اسلامی ریاست وجود میں آئی تو اگلے دن لیاقت علی خان نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائیدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لئے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں ہندوستان سے اپنے حصہ کی رقم لینے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ قائد ملت نوزائیدہ مملکت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرتے رہے مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
اسکندر مرزا 7:اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ کیے جانے کی روایت ڈالی گئی جس کے ذمہ دار صدر اسکندر مرزا تھے اس وقت بری فوج کے سربراہ ایوب خان تھے۔7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کردیا۔ ایوب خان مزید اختیارات حاصل کرنے کے خواہشمند تھے چنانچہ 24اکتوبر 1958ء کو انہیں ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا مگر پھر بھی ایوب خان اور اسکندر مرزا کے درمیان حائل خلیج وسیع ہوتی گئی۔ تین دن بعد یعنی 27 اکتوبر 1958ء کورات دس بجے ایوب خان نے بندوق کی نوک پر اسکندر مرزا سے ان کے استعفے پر دستخط کروالیے اور ملک کے طاقتور ترین سربراہ بن گئے۔ آج بھی تاریخ کے بہت سے اوراق پر ان دونوں حکمرانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان موجود ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح:مادرملت کا شمار پاکستان بنانے والوںمیں ہوتا ہے۔ آپ نے پیرانہ سالی کے باوجود قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور انکی دیکھ بھال کی۔ اگر آپ یہ تمام خدمات انجام نہ دیتیں تو شاید پاکستان کے قیام کو عمل میں لانا اتنا آسان نہ ہوتا۔7اکتوبر 1958ء کو خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو محترمہ فاطمہ جناح نے محسوس کیا کہ ملک اور عوام کو ان کی ضرورت ہے اور وہ اپوزیشن رہنمائوں کے اصرار پر ایوبی آمریت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئیں۔ لیکن یہ پاکستان کے عوام کی بدقسمتی تھی کہ2 جنوری 1965ء کے عام انتخابات میں ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی گرانقدر کوششوں سے انکار ممکن نہیں مگر آمریت نے اپنے سینے پر حب الوطنی کا خود ساختہ سرٹیفکیٹ چسپاں کرلیا۔
ذوالفقار علی بھٹو:روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست شروع کی۔ بحیثیت وزیرخارجہ تو ان کی خدمات کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی لیکن لاہور میں مسلم ممالک کے سربراہان کی سمٹ کانفرنس منعقد کروانا ان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوان ہی 1973ء کا آئین تیار ہوااور ملک کی سالمیت کے لیے نیو کلیئر اٹامک بورڈ کا قیام عمل میں لایاگیا۔ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان کو دولخت کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے اور اسی بنا پر انہیں غداری کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔
جنرل ضیاء الحق:جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بھروسہ مند جرنیل ضیاءالحق کو آرمی چیف بنایا لیکن اسی نے سیاسی صورتحال کو بدترین قرار دیتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا یااور منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی۔جنرل ضیاالحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا اور ملک میں منشیات کا استعمال عام ہوا۔اسی دور میں امریکی مفادات کیلئے سوویت یونین کیخلاف جنگ لڑی گئی اور اس جنگ میں مجاہدین کے نام سے عسکریت پسند تیار کئے گئے جو آج طالبان کی مکروہ شکل میں تخریبی سرگرمیاںجاری رکھے ہوئے ہیں۔ ضیاءالحق کا گیارہ سالہ دورِ آمریت بہت سے سنگین اثرات چھوڑ گیاجن کے نتائج قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ ضیاء الحق نے بھی مرتے دم تک حب الوطنی کی چادر تانے رکھی۔
بے نظیر بھٹو:پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو1988ء میں کم عمرترین اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو آمریت کی بجائے جمہوریت پر یقین رکھتی تھیں جبکہ وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفہ سے بھی آگاہ تھیں ان کے دور حکومت میں پاکستان نے خارجہ امور پر قابل رشک کامیابیاں حاصل کیں ایسا ہی نہیں تھا بلکہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں عوامی بہبود کے لاتعداد منصوبے شروع ہی نہیں بلکہ انہیں قابل عمل بھی بنایا گیا۔ بے نظیر بھٹو پر بھی ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے مگر آج بھی انکے جیالے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محترمہ کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
پرویز مشرف: مئی 1999 میں پاک فوج نے کارگل کی چوٹیوں پرقبضہ کرلیا جس کی خبر اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بالکل نہیں تھی، پاک فوج کے جوان کارگل کے ان پہاڑوں پر قابض ہوچکے تھے لیکن امریکی دبائو پرپاکستان کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرنا پڑیں۔ اس واقعہ کی وجہ سے نواز شریف اور پرویز مشرف میں بد اعتمادی کا بیج پروان چڑھنے لگا نتیجتاً نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی اور انہیں پہلے اڈیالہ جیل اورپھر جلا وطن کردیا گیا۔ یوں تو مشرف حکومت نے امریکہ کی ’’جی حضوری‘‘ میں وہ سب کچھ کیاجو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھااور انہی کے دورمیں لال مسجد سانحہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا چلا گیا۔
میاںنواز شریف: وزارت عظمیٰ کے منصب پر تین بار فائز رہنے والے میاں نواز شریف عالمی طاقتوں کی مخالفت مول لیتے ہوئے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے اقوام عالم کو ششدرکردیااور دنیا کو دو ٹوک پیغام دے دیا کہ اب پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے کسی کو ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ تینوں ادوار پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط بنایا جائے۔ میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہمسایہ ملک چین کے ساتھ مل کر سی پیک جیسے عظیم اقتصادی منصوبہ کی بنیاد بھی رکھی گئی ۔اس کے علاوہ یہ نواز شریف ہی کی حکومت کا کارنامہ ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے لیکن آج بھی میاں نواز شریف کی حب الوطنی کوشک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔
میرے خیال میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کو غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرے اور خود کو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار قرار دے بلکہ ہماری ترجیحات میں ملکی سلامتی کیلئے اتحاد و یگانگت پیدا کرنا شامل ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔