اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے بنی گالہ کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے کی جانب سے اس علاقے میں نافذ کی گئی دفعہ 144کانفاذ ختم کر تے ہوئے بنی گالہ میں واقع بوٹینکل گارڈن اور نالہ کورنگ کے قریب واقع ہائوسنگ سوسائٹیوں میںمجاز اتھارٹی اور ماحولیاتی ایجنسی کی پیشگی منظوری کے بغیر تعمیرات روکنے کا حکم دیتے ہوئے بجلی کے نئے کنکشن کے اجراء پر پابندی برقرار رکھی ہے جبکہ بنی گالہ کی سرکاری اراضی کی لیز کی تفصیلات طلب کرلی ہیں، عدالت نےسی ڈی اے اورمتعلقہ یونین کونسل سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے بنی گالہ کے گھرکا نقشہ اور دیگر متعلقہ دستاویزات طلب کرلی ہیںجبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثا رنے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی بھی معاملہ سے متعلق آواز اٹھانے والے کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے، عمران خان نے اپنی پراپرٹی کی با ئو نڈری کر لی ہے اور کیا عمران خان نے گھر کی تعمیر کی اجازت متعلقہ ادارے سے لی تھی، بنی گالا تعمیرات اگر قانون کے دائرے میں ہیں توٹھیک ورنہ گرادیں،ہمیں آواز اٹھانے والے کی سلیٹ بھی دیکھنی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تعمیرات اور تجاوزات کے ایشو پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے تعاون نہیں کیا۔دوسری جانب فاضل عدالت نے وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری کو رضاکارانہ طور پر راول جھیل کے نزدیک کیمپ لگا کروہاں پر آلودگی کے پھیلائو کے حوالے سے عوام کے مسائل سن کر اس کے سدباب کیلئے تجاویز پر مبنی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے وکیل بابر اعوان پیش ہوئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ تعمیرات اور تجاوزات کے ایشو پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے تعاون نہیں کیا جبکہ عدالت نے تمام فریقین کے ساتھ ملاقات کر کے تجاویز دینے کا کہا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ ہر قسم کی تعمیر کو بنی گالا میں روک دیا جائے اور گیس اور بجلی کے محکموں کو بھی این او سی جاری کرنے سے روک دیا جائے،اس موقع پربابراعوان نے موقف اختیار کیا کہ انکے موکل کی نجی جائیداد ہے،جس سے سی ڈی اے کا کوئی تعلق نہیں،یہ یونین کونسل موہڑہ نور کا علاقہ ہے،اور بنی گالہ اس کا ایک حصہ ہے،میرے موکل نے ہی سب سے پہلے یہاں پر ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے آواز اٹھائی تھی،جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ کسی بھی معاملہ سے متعلق آواز اٹھانے والے کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے، ہمیں آواز اٹھانے والے کی سلیٹ بھی دیکھنی ہے، بلڈنگ ریگولیشنز کی پابندی کرنا ہوگی،آپ کے موکل نے 305 کنال اراضی خریدی تھی،کیا اس کے گرد چار دیواری بنا لی ہے؟ اور کیا گھر کی تعمیر کیلئے کسی سے اجازت لی تھی؟ تو انہوںنے کہا کہ یونین کونسل سے اجازت لی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اجازت نامہ عدالت میں پیش کردیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ میں بعد میں پیش کردوں گا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکے پاس کوئی نقشہ نہیں۔ فاضل وکیل نے کہا کہ نالہ کورنگ کے پل کے ساتھ بھی تعمیرات شروع کردی گئی ہیں، سی ڈی اے والے بتائیں کہ کیا اسلام آباد کے کسی اور گائوں یا یونین کونسل میں ان کے ریگولیشنز لاگو ہیں،ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144کے نفاذ کی صورت میں ڈپٹی کمشنر یا اسکے نمائندے کا مداخلت کا اختیار ہوتا ہے،اس پر تو سی ڈی اے کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ بابراعوان نے کہاکہ بنی گالا میں تین قسم کی پراپرٹی ہے، نجی مالکان کو اپنی جائیداد کو مرضی سے استعمال کی اجازت ہے،سی ڈی اے کا نجی پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دفعہ 144کے نفاذ کا مقصد اس علاقے کو بچانا تھا،تاکہ جنگل قائم رہے،راول ڈیم پر تو اپنے دوستوں کو اراضیاں لیز پر دے دی گئی ہیں اور وہاں پر تو ریسٹورنٹس بن گئے ہیں،کیا اس علاقے میں ریسٹورنٹس بنائے جا سکتے ہیں؟نالوں کے کناروں پر مکانات بنا دیئے گئے ہیں، پھر جب سیلاب میں جانی و مالی نقصان ہوتا ہے تو حکومت پر ہی تنقید کی جاتی ہے۔