اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 62(1)Fکے تحت کسی بھی عوامی نمائندے کی عدالت کی جانب سے کی گئی نااہلیت کی مدت کے تعین سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء اور اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب آئین میں مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوگی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ نااہلیت کی مدت کے تعین کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے، جب تک پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی نہیں کرتی، اس وقت تک نااہلیت کا ڈیکلیریشن موجود رہے گا ، مدت کا تعین پارلیمنٹ کا اختیار ہے،یہ معاملہ پارلیمنٹ کو حل کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ وہ کسی بین الاقوامی کیس کے سلسلے میں لندن اور یورپ میں جانا چاہتے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو علم ہے کہ ان دنوں سپریم کورٹ میںکتنے اہم مقدمات زیرِ سماعت ہیں، آپ یہ مقدمات چھوڑ کر بیرونِ ملک نہیں جا سکتے،جس پر انہوں نے بتایا کہ اگر عدالت کہے گی تو وہ لندن کا دورہ منسوخ کر دیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں ہی موجود رہیں گے اور آپ کہیں نہیں جائیں گے،جسکے بعد اٹارنی جنرل نے درخواستوں سے متعلق دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آئین نے آرٹیکل 62(1)Fکے تحت نااہلی کی معیاد کا تعین نہیں کیا ہے، کسی بھی عوامی نمائندے کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت کا داغ بعض اوقات اس شخص کے مرنے کے بعد بھی رہتا ہے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی شخص کسی فوجداری جرم میں سزا پائے تو وہ بھی تو اس پر داغ ہی ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی مدت کا تعین پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کر سکتی ہے، اب سوال نااہلی کی مدت کے تعین کا ہے، آئین میں مدت کا تعین نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب مدت کا تعین نہیں ہے تو نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نااہلیت کا داغ مجاز فورم یا مجاز عدالت ہی ختم کرسکتی ہے اور نااہلی کا داغ ختم کیے بغیر نااہلیت تاحیات رہے گی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی نااہل شخص ضمنی الیکشن یا آئندہ الیکشن لڑ سکتا ہے؟تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں جعلسازی اور غلط بیانی کو دیکھنا ہوگااور ایسی صورت میںعدالت کو کیس ٹو کیس مدت کا تعین کرنا ہوگا،ریٹرننگ افسرعدالتی گائیڈ لائن پر ہی نااہلیت کا تعین کرے گا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے استفسار کیا کہ کیانااہلیت کا ڈیکلیریشن وقت کے ساتھ ازخود ختم ہوسکتا ہے،تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ڈیکلیریشن ازخود ختم نہیں ہوسکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں، تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا معاملہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کرسکتی ہے،مدت کے تعین کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے، جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرتی اس وقت تک ڈیکلیریشن موجود رہے گا۔ ا نہوںنے کہا کہ کہ آئین میں نااہلیت کے ڈیکلیریشن کو ری وزٹ کرنے کا میکنزم بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نااہلی کا فیصلہ دیتے وقت مدت کا تعین کریگی یا نااہل امیدوار جب کاغذات نامزدگی داخل کریگا تو مدت کا تعین کرے گا۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔