چیف جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ راؤ انوار نے آج پیش نہ ہو کر بڑا موقع گنوا دیا، عدالت نے راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
کیس کی مزید سماعت 15 دن کے لئے ملتوی کردی گئی۔
نقیب اللہ محسود قتل میں ازخود نوٹس کیس کی اسلام آباد سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تاہم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار آج بھی پیش نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ سندھ پولیس نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے کیا کیا،آپ کی ذمہ داری اب بھی وہیں پر ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے سوال کیا کہ ان کا راؤ انوار سے رابطہ ہوا یا نہیں؟ جس پر آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا راؤ انوار سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ ہوا تھا جس میں انہوں نے آج پیش ہونے کے حوالے سے بتایا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ راؤ انوار نے آج پیش نہ ہو کر بڑا موقع گنوا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو جے آئی ٹی میں تبدیلی بھی کرنے لگے تھے۔
جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پولیس کو تمام تر سہولیات فراہم کریں گے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی،آئی بی،ایم آئی،ایف آئی اے اور ایف سی کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیےمدد فراہم کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔
چیف جسٹس نے اسٹیٹ بینک کو راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے۔ اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے آئی جیز کو نقیب اللہ محسود قتل کیس کے گواہوں کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایات بھی جاری گئیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے نقیب قتل کیس کی سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کردی۔
سماعت شروع ہونے سے قبل مقتول نقیب اللہ محسود کے والد سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسر راؤ انوار کے ظلم کے خلاف آج سپریم کورٹ آئے ہیں، ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف چاہیے اور انشاءاللہ انصاف ملے گا۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے لیے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی، ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان سمیت سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
کیس کی سماعت سے قبل راؤ انوار کی ممکنہ پیشی کے باعث عدالت کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
اس سے قبل گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے، آئی جی سندھ کو عدالت کو ملنے والا راؤ انوار کا خط دکھایا جس میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی تشکیل دی جائے تو عدالت میں پیش ہوجاؤں گا۔
عدالت کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو خط دکھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ دستخط تو راؤ انور سے ہی ملتے جلتے ہیں جس کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا ساتھ ہی جے آئی ٹی رپورٹ ملنے تک راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا بھی کہا۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی جانب سے راؤ انوار کی گرفتاری کی تین بار ڈیڈ لائنز دی گئیں تاہم تینوں بار پولیس کو ناکامی اور عدالت کے سامنے بے بسی کا اظہار کرنا پڑا۔
کیس کے سلسلے میں پولیس پارٹی کو اسلام آباد اور خیبر پختونخوا بھیجا گیا تاہم اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ نقیب قتل کیس میں پہلے ہی 6 پولیس اہلکار گرفتار کیے جا چکے تھے جن میں انسپکٹر یاسین، اے ایس آئی سُپرد حسین، اے ایس آئی اللہ یار، ہیڈ کانسٹیبل اقبال، کانسٹیبل ارشد علی اور ہیڈ کانسٹیبل حضرت حیات شامل ہیں۔
نقیب الله قتل کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی سندھ پولیس کی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کو دو ساتھیوں سمیت 3 جنوری کو اٹھایا گیا، ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ نقیب اللہ محسود کو غیرقانونی حراست میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پولیس افسران نقیب اللہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی منتقل کرتے رہے اور 13 جنوری کو بادی النظر میں جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔