• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام عالم، خصوصاً پاکستان کی تاریخ سیاست کا سبق ایک ہی، رائے عامہ کو جتنا دباؤ گے، تحریک اور ابھرے گی۔ جتنے مرضی جتن کر لو، جب خلق خدا حقوق ملکیت حاصل کر لے، جتلا دے، ریاست تو مضروب ہوسکتی، تحریک نہیں رک سکتی۔ زندہ تابندہ مثال نواز شریف کی نااہلی، روک سکتے ہو تو روک لو، جو اداروں کا روگ بن چکی ہے، مرض اور ہی بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ میرا روگ مختلف، محدود عقل، سیاست کی گتھیاں سلجھاتے الجھ چکیں، وطن عزیز میں اداروں اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ٹکراؤ اور تصادم میں نیا موڑ آچکا ہے۔ کل سے وزیر اعظم نے پارلیمان میں طبل جنگ بجا دیا، اپوزیشن لیڈر نے تائید وحمایت کا اعلان فرما دیا۔ اے میری قوم! ایک نکتہ میرا ازبر کر لو، وطن عزیز جس گڑھے میں گرنے کو، قوم کے معتبر خلوص نیت اور صدق دل سے گہرا کرنے میں تن من دھن لگا چکے ہیں۔ یہی تو ہیں جو جانتے، نہ جانتے قوم میں تصادم کو ہوا دے رہے ہیں۔ اداروں کے اوپر قوم کی تقسیم در تقسیم کامیابی سے ہمکنارہے۔ درجنوں ملک کھنگالے، بے شمار ممالک کی سیاست، صحافت، تہذیب، تمدن، تقسیم، جمع، تفریق، ضرب کو قریب سے دیکھا۔ ایک ملک ایسا نہیں، جہاں ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہو۔ کہیں بھی قومیں اپنے عسکری یا عدالتی اداروں پر منقسم نہیں ہیں۔ حالات ایسے کہ خون جگر پینا، ناممکن۔ کیا مشکل؟ وطن عزیز بمشکل ایک قدم آگے کیا بڑھاتاہے، دو قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ آئین اسٹائن کا کہا ہمارے پر لاگو ’’احمق کی نشانی کیا ہے؟ ایک ہی تجربہ بار بار دہرانا اور ہر بار فرق نتیجے کی توقع رکھنا، دہائیوں سے ایک ہی رٹ سنتے کان پک چکے ہیں ’’وطنی سیاستدان، بالخصوص مقتدر گروہ نا اہل، کرپٹ، ملکی سالمیت کے لئے رسک ہے۔ بیخ کنی ضروری ہے‘‘۔ افسوس اتنا کہ پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی نہ بخشا گیا۔ تختہ الٹنے کی فوجی سازش ناکام رہی توبے دردی سے دن دیہاڑے ہزاروں عینی شاہدوں کے بیچ شہید کر دیا گیا۔ آج تک وجہ معلوم نہ ہو سکی، قتل کی سازش کرنے والے کون؟ محرکات بارے قوم لاعلم؟ احساس زیاں کا حساب کتاب قوم نے کبھی رکھا نہیں۔ یاد ماضی کو عذاب بننے نہیں دیا کہ گزرے کل پر مٹی ڈالنا وطیرہ بن چکا۔ جہاں ماضی طاق نسیاں، حال مست، مستقبل غافل، بدمست مفاد پرست کھل کھیلیں۔ قومی رخت سفر کی اتنی سی کہانی۔ یقیناً سیاستدانوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی درست کہ آج کے سیاستدان نا اہل، کرپٹ، خودغرض، معاشرے کے معتبر لوگ نہیں ہیں۔ ہمارے پاس چوائس ہے کیا، پھر دلہن وہی جو رائے عامہ من بھائے۔ جب اسمبلیاں موجود ادارے رخنہ ڈالنے والے کون اور کیوں؟ صحیح، ایک زمانہ تھا جب سیاستدان (بانیان پاکستان) معاشرے کے بہترین لوگ،50 کی دہائی کے جرنیلوں اور ججوں کے مقابلے میں اوتار اور ولی تب بھی ادارہ جاتی گٹھ جوڑ نے فرشتہ صفت سیاستدانوں کی ناک میں دم کیے رکھا۔ اب کیوں معاف کریں، سیاستدان اسلاف کے اوصاف حمیدہ سے دور، اکثریت کسی طور قیادت کے بنیادی وصف اور تقاضے پورے نہیں کرتی۔ مگر چوائس کیا ہے، جیسے قوم اور ادارے ویسے سیاستدان بھی، بے نوری دور میں قسمت سے ہی دیدہ ور ملے گا۔
مقتدر طبقہ کو عفریت، راکشس، گاڈ فادر، چور، ڈاکو، کرپٹ ترین، بدہیئت وجود، سیکورٹی رسک بتانا، کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ نتیجہ خطرناک، قوم بھگتنے کو تیار۔ 4سال سے میڈیا کو پنجہ استبداد میں رکھ کر نواز شریف اور خاندان کوسرزمین پاک کا سب سے بڑا چور، کرپٹ بے ہنگم گروہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ سیاسی مایوس، ان کے لواحقین، متاثرین، معتقدین کو قائل ضرور کر لیا ہے۔ مگر قوم کی تقسیم ہو چکی۔ اختلافات کی خلیج ایسی وسیع کہ باہمی تصادم خصلت اور عادت بلکہ قومی مزاج بن چکا ہے۔ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کا عمل 2014کے اوائل سے شروع ہونے والی تحریک، ’’سیاست نہیں، ریاست‘‘ بچاؤ، ایسے منطقی انجام پر پہنچا چکی ہے کہ ریاست اور سیاست دونوں تباہی کے دہانے پر ہیں۔ 4سال کے دھرنوں، لاک ڈاؤن کا لب لباب، سیاست اور ریاست دونوں ہلکان ہیں۔ تحریک کے بانی مبانی، اسکرپٹ رائٹر سینہ تان کر دن دیہاڑے تحریک کی پلاننگ، ترتیب، ترکیب کرتے جھجھک محسوس نہ کی۔ نادیدہ قوتوں کا رول 2014میں مخدوم جاوید ہاشمی کے انکشافات سے بھی بہت پہلے عیاں ہوچکا تھا۔ بڑھ چڑھ کر نظر آیا۔ دھرنے، اسلام آباد لاک ڈاؤن، ماڈل ٹاؤن فائرنگ کیس، خادم حسین رضوی جیسی فخریہ پیشکش، مقصد ایک ہی، ن لیگ حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرکے گرانے پر سب متفق و متحد نظر آئے۔ اللہ کی اپنی اسکیم سے الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا، نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال۔ حیران ہوں بلکہ پریشان ہوں، 2014 میں کونسی افتاد آن پڑی تھی کہ مملکت پر قیامت ڈھا دی گئی۔ آج نواز شریف کی سیاست 2013 کے مقابلے میں زیادہ مستحکم، ابھر کر سامنے ہے۔ عمران خان نے برملا اس کا اعتراف کیا۔ اس بات پر سپریم کورٹ کو آڑے ہاتھوں لیا، ’’اقامہ پر کمزور فیصلہ اور جی ٹی روڈ کی تقاریر پر نوٹس نہ لینا، نواز شریف کو مقبول و مضبوط بنا گیا‘‘۔ لودھراں کی شکست پر نواز شریف کی تمام اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف کے پاؤں اُکھاڑ چکے، پچھلے دنوں لودھراں میں نواز شریف بمع کنبہ و قبیلہ ایسے گرجے برسے کہ سیاسی صورتحال مزید تلخ اور گھمبیر ہو گئی ہے۔ امپائر کی انگلی، عمران خان کی سیاست پر وہ دھبہ اور بٹا جو رہتی زندگی عمران خان کی زندگی کو کچوکے لگاتا رہے گا۔ جس امپائر نے ریاست کو سیاست سے نجات دلانے کی سازشی کہانی تیار کر کے اپنی ٹیم، اپنے کھلاڑی میدان میں اتارے، اس کا ذکر خود عمران خان کے لئے سوہان روح بن چکا ہے جبکہ دونوں بڑے ادارے پچھلے چار سال سے اس امپائر سے لاتعلقی کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر یہ امپائر ایسا سندر کردار تھا تو تعلق ملکیت میں شرمندگی کیوں اور کیسی؟ عمران خان، سچ، دیانت دار سے کوسوں دور، کس امپائر نے اکسایا؟ ضد سے قوم کو اندھیرے میں رکھ کر عزت و وقار میں اضافے کی توقع کر بیٹھے تھے،اتراتے، سینہ پھلانے میں عار نہ جانتے تھے۔ امپائر کوئی بھی، کسی بھی ادارے یا اداروں کا کرتا دھرتا ہوبہرحال نواز شریف نے لودھراں میں امپائر کی انگلی پر انگارہ رکھ دیا ہے۔ اپنی کلیدی تقریر میں سیاق و سباق کے ساتھ نہ صرف قضیے کا فیصلہ سنا دیا، عمران خان کے امپائر کو دوٹوک پیغام بھی پہنچادیا ’’ یہ کوڑا کرکٹ کا کھیل نہیں کہ امپائر کی انگلی مددگار رہتی یہ رائے عامہ کا انگوٹھا طے کرے گا کہ ریاست کی حکمرانی کا اصل حقدار کون ہے‘‘ عمران خان نے شکست وریخت کو جب جوڑا تو فیصلہ دیا کہ لودھراں کی شکست سے سبق سیکھا ہے۔ نواز شریف نے طرح مصرعہ لگایا۔ عمران خان کے پردے میں امپائر کو بھی پیغام دیا ’’ اب آپ لوگوں کو خلقِ خدا سبق سکھلائے گی‘‘۔ ابھی کل ہی وزیر اعظم عباسی اورمسلم لیگ پارلیمانی پارٹی نے اپنا مؤقف اسمبلی میں دہرانے، بڑھانے کی نوید سنائی۔ہر سطح پر لڑائی بڑھ چکی ہے۔ چند سالوں میں بار بار تخمینہ لگایا بے ہنگم نقار خانے میں گلا پھاڑ ا کہ سیاست کے بغیر ریاست بے سود، تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملنا۔ اداروںکے اوپر قوم کو تقسیم نہ کرو۔ بہرحال جہنم کا راستہ منتخب ہوچکا۔ کوئی فریق چند قدم پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہ ہی تیار ہے ۔ہر ایک نے دوسرے پر کڑا وار کرنا ہے۔ان اور طاقتور قوتوں کا ان کہا بیانیہ ایک ہی، بازگشت عام کہ نواز شریف مع لواحقین، سیاست میں کوئی رول نہیں، مقصد کے حصول کے لئے ہر انتہا ٹاپنی ہے۔ ریاست، استحکام جائے بھاڑ میں۔ ہر فریق اپنے آپکو Convince کر چکا ہے کہ حق اور سچ کا اصل علمبردار وہی، مملکت کو چار چاند لگانے کی ذمہ داری انہی کی۔ایک دوسرے کے خلاف مزید کئی وارداتیں سرزد کرنے کے لئے پینترے بدلے جارہے ہیں۔ بانی متحدہ کے وزن پر نواز شریف پر کریمنل کیسز، توہین عدالت، تقاریر پر پابندی لگانے کا ہوم ورک بذریعہ جگاٹ پورا کیا جا رہا ہے۔ ادارے سمجھنے سے مفلوج کہ نواز شریف کا مقبول عام بیانیہ جڑ پکڑ چکا ہے، دونوں اطراف سرحدوں پر امریکہ اور بھارت کی پیش قدمیاں، بہت ساری سہولتیں پچھلے ادوار کی اب موجود نہیں ہیں۔ نواز شریف کا قلعہ عوام، مضبوط، کچھ بھی نہیں بگاڑ پائیں گے، ریاست کی فکر کریں۔ حکومت سے نکالنا کوئی مشکل نہ تھا، کون سا کمال، ایک جیپ اور پانچ ٹرک یا عدالت عالیہ کا کمزور ترین فیصلہ کوئی قسم بھی اپنا کام دکھا سکتی تھی، دکھا چکی۔ عوام کے دلوں سے کیسے اور کیونکر نکالو گے۔ نااہلی پہ خلق خدا کا رد عمل دیکھ لیا۔ جوں جوں آپ آگے بڑھو گے، توں توں عوام کا جوش و جذبہ اور ولولہ بھی آگے بڑھے گا۔ کون سچا، کون جھوٹا ؟ کون معصوم کون کون سازشی ؟ عوام کایہ ایشو نہیں۔ ایشو اتنا کہ ریاست رائے عامہ نے چلانی ہے یا اداروں نے ؟فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ خاطر جمع رکھیں جس اقتدار اور اختیارات پر نواز شریف سے لڑائی جاری ہے، لڑائی کے سارے فریق سیٹ بیلٹ باندھ لیں، ہاتھ ملنے کے لئے تیار ہوں، آگیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا

تازہ ترین