• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیانے کہتے ہیں وقت پر فیصلہ کر لیا جائے تو اس کے نتائج بہت مثبت ہوتے ہیں۔ انسان بہت سی نظر نہ آنے والی مشکلات سے بچ جاتا ہے۔ غلط فیصلے سے زیادہ صحیح موقع پر فیصلے سے اجتناب کرنا خطرناک ہے کیوں کہ ایسا عمل غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے چینل اتنے تبصرے اور پھر مختلف طبقے کے لوگ اپنی اپنی فکر اور سیاسی وژن کے مطابق سوچتے اور بات کرتے ہیں۔ نہ جانے کیوں پاکستان میں آج کل اصل مسائل کے بجائے چند ایسے معاملات کو ترجیحات میں شامل کر دیا گیا ہے جن کا نہ تو ملک کی معیشت پر کوئی اثر ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی بڑا انقلاب رونما ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں بلکہ آج کل کے حالات کا موازنہ کر لیں تو وہاں بھی مختلف قوتیں آپس میں برسر پیکار نظر آئیں گی۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ مختلف لوگ مختلف سوچ رکھتے ہیں اور اپنے اپنے نظریے کے مطابق ملک کو چلانے کی بات کرتے ہیں۔ اختلاف برداشت نہ کرنے والے احتجاج اور انتشار کا رستہ منتخب کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جمہوریت نام ہی مشترکہ حکمتِ عملی اور رائے عامہ کے احترام کا ہے۔ یہ رائے صرف کسی خاص شخص کے بارے میں پسند ناپسند سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس کا تعلق بھی ملک کی تعمیر و ترقی سے ہوتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو کہ وسائل سے مالا مال ہے اس کے باوجود گھٹنوں گھٹنوں قرضوں میں دبا ہوا ہے اور قرضے دینے والے بھی نت نئے مطالبات اور جلی کٹی سنا کر عوام کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے وقت میں ذاتی ایشوز پر بات کرنے کی بجائے ملکی مفادات کو ترجیحات میں شامل کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
ایک فیصلہ جو بڑی دیر سے التوا کا شکار تھا اور جس کی وجہ سے ہر روز جنم لینے والی نت نئی افواہوں نے جمہوری نظام سے محبت رکھنے والوں کو فکرمند کر رکھا تھا۔ سابق وزیراعظم کے نااہل ہونے اور پھر پارٹی صدر سے بھی نااہل قرار دینے کے بعد جو شکوک و شبہات شدت اختیار کر رہے تھے ان کی وجہ سے پارٹی کے بکھرنے کا بھی اندیشہ تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو پارٹی صدر نہ بنانے میں جو تاخیر ہو رہی تھی اس کو بھی کچھ حلقے اور عوام کی اکثریت مختلف معنی پہنا رہی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک عجیب سی بے یقینی چھائی ہوئی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ تاہم اس فیصلے کو جتنا سراہا جائے اتنا کم ہے کیوں کہ اگر اس وقت سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کو پارٹی صدر بنایا جاتا تو اس سے سینئر سیاست دانوں میں بے چینی پھیلنے کا اندیشہ تھا جن کی عمریں سیاست کے خاردار صحرا میں سفر کرتے گزری ہیں، جنہوں نے کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور جو سیاست کے حوالے سے زیادہ عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی سیاست میں تو قدم قدم پر نئے انکشافات ہوتے ہیں، مختلف ذہن مختلف باتیں سوچ رہے ہوتے ہیں، سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے آپس کے تضادات اس طرح سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سیاست دان ایک ایسا رہنما ہوتا ہے جو اپنے ملک اور عوام کی فلاح کا خواب دیکھتا ہے، اس کا مقصد حکمرانی نہیں بلکہ خدمت ہوتا ہے۔ اگرچہ اس پر ابھی تک کوئی بھی رہنما پورا اترنے میں ناکام رہا ہے تاہم سیاستدان حقیقت اور تصورات کے درمیان ایک پُل پر کھڑی وہ شخصیت ہے جو آفاقی سچائیوں اور اقدار کی مدد سے حقیقی دنیا میں روشنی بکھیرنے اور انسانیت کو جوڑنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں اسے پوری جماعت اور پھر قوم کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ اس کا خواب اس کے ذہن میں ہی رہ جاتا ہے۔ اس لچکدار پُل پر توازن قائم رکھنا سب سے اہم ہے۔ سیاسی ژالہ باری، حالات و واقعات اور پارٹی کی ترجیحات اُسے ڈانواں ڈول کرتے رہتے ہیں لیکن جس کا ارادہ پختہ ہو وہ قدم جمائے رکھتا ہے اور ایک دن اپنی منزل حاصل کر لیتا ہے۔
اسی تناظر میں کمٹمنٹ اور خدمتِ خلق کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو وزیراعلیٰ پنجاب نے ہر دور میں کمال ضبط سے گرم سرد حالات کا سامنا کیا ہے، بڑی جرأت سے آزمائشوں اور نازک حالات میں بھی ثابت قدمی دکھائی ہے۔ ان کے ترقیاتی منصوبے ایک بڑا کارنامہ ہیں۔ ان کی شخصیت کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ مفاہمت اور مصالحت سے معاملات کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔ یوں مسلم لیگ نے وزیراعلیٰ پنجاب کو پارٹی صدر بنا کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ موجودہ حالات کا یہی تقاضا تھا۔ اگر حالات کی نزاکت کو محسوس کر لیا جائے تو معاملات سلجھ جاتے ہیں کہ سیاست لڑائی نہیں افہام و تفہیم کا نام ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے باقی فیصلے بھی اسی سوچ کے حامل ہوں گے۔ اب انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اور وہ تمام افواہیں بھی دم توڑتی محسوس ہو رہی ہیں جن میں سینیٹ کے الیکشن نہ ہونا اور ٹیکنو کریٹ کی حکومت کے شوشے شامل تھے۔ سینیٹ کے الیکشن نے ان تمام خدشات کا قلع قمع کر دیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر جو الزامات لگائے جا رہے تھے ان میں بھی کوئی صداقت نظر نہیں آ رہی۔ اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہمارے اپنے لوگ شامل ہیں۔ ہم جو ایک خاندان کی طرح ہیں کس لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اداروں کا آپس کا ٹکرائو کسی کے مفاد میں نہیں۔ سابق وزیراعظم نے اپنی نااہلی کو جواز بنا کر ایک بھرپور سیاسی مہم مکمل کر لی ہے۔ اب صرف انتخابات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہم سب میں بہت سی خامیاں ہیں، کوتاہیاں ہیں اس لئے کہ کوتاہیاں برتنے والا فرد کسی کی گردن نہیں پکڑ سکتا۔ دیگر اداروں کا بھی یہی عالم ہے اس لئے اپنے گھر کے رازوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے جگ ہنسائی کی بجائے اپنی کارکردگی کو سامنے رکھ کر دوسری سیاسی جماعتوں سے موازنے پر توجہ مرکوز کر کے الیکشن میں اترنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ جس انقلاب کو برپا کرنے پر زور ہے وہ ابھی ممکن نہیں اس لئے کہ اس کے لئے ہر مقتدر شخص اور ادارے کا بے رحم احتساب ضروری ہے۔ جس دن سیاستدان ملک معراج خالد کی طرح بے لوث اور دیانت دار ہو جائیں گے اس دن وہ باقی اداروں کی اصلاح، حد بندی اور یکساں سلوک کا علم بلند کریں گے تو پورا ملک ان کے ساتھ ہو گا۔ حب الوطنی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ دیگر ممالک میں کی گئی سرمایہ کاری کو واپس لانے میں سیاستدان پہل کریں اور عوام کو روزگار فراہم کریں۔ یہ ہی انقلاب کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ زبانی تقریروں سے انقلاب نہیں آنے والے اور ویسے بھی ایک دن یا چند مہینوں میں انقلاب نہیں آتے۔ آہستہ آہستہ چیزیں فکر کا حصہ بنتی ہیں اور پھر ایک دن توانا پکار میں بدل جاتی ہیں۔ جب تک عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جائے گی، خاص اور عام کا فرق نہیں ختم کیا جائے گا، شاہانہ اندازِ بود و باش کو سادگی میں نہیں ڈھالا جائے گا تب تک عوام سے سو فیصد حمایت کی توقع رکھنا فضول ہے۔

تازہ ترین