پاکستان میں لکس اسٹائل ایوارڈز کا اجراء اُس وقت کیا گیا، جب ملک میں بدترین حالات تھے، ہر طرف خوف اور دہشت گردی کا راج تھا۔ شہروں میں سناٹوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں کیٹ واک کی سربراہ فریحہ الطاف نے16 برس قبل اسٹائل ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا، جو آہستہ آہستہ پاکستان کا سب سے بڑا شو بزنس ایوارڈ کا درجہ حاصل کرگیا۔ لکس اسٹائل ایوارڈز کی تقاریب سب سے زیادہ کراچی میں منعقد کی گئیں۔ ایک مرتبہ سینکڑوں فن کاروں کو دبئی لے جاکر ایوارڈز دیے گئے اور ایک بار ملائیشیا میں اسٹائل ایوارڈز کی رنگا رنگ تقریب سجائی گئی۔ پانچ برس قبل لاہور میں ایل ایس اے کا انعقاد کیا گیا اور اب ایک مرتبہ پھر 2018 میں داتا کی نگری لاہور میں لکس اسٹائل ایوارڈز کی رنگا رنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر لاہور کا ایکسپو سینٹر پاکستان کے صفِ اول کے فن کاروں سے جگما رہا تھا۔ ریڈکارپٹ پر دل چسپ صورتِ حال دیکھنے میں آرہی تھی۔ اداکارہ عائشہ عمر کا دوران فوٹو شوٹ موبائل فون گم ہوگیا، وہ اپنا مہنگا ڈریس اور میک اپ سب بھول گئیں اور موبائل کے غم میں ان کا چہرہ اتر گیا، تھوڑی دیر تک تلاش کے بعد موبائل ملا تو عائشہ عمر نے سکون کا سانس لیا۔ لکس اسٹائل ایوارڈز کی نامزدگی کے بارے میں ریڈکارپٹ پر شکوے شکایتوں کے سلسلے بھی جاری رہے۔ ایوارڈز کی تقریب کے بعد سب سے زیادہ ماہرہ خان کو ایوارڈز دینے پر سخت تنقید سامنے آئی۔ مہوش حیات کو پاکستان بھر سے ہمدردی کے پیغامات موصول ہوئے۔ مہوش کے ساتھ ناانصافی ہوئی، اُن کو ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔ اسٹیج پر رونما ہونے والا جاوید شیخ اور ماہرہ خان کا واقعہ بھی خوب مقبول ہوا۔ دوسری جانب احسن خان، ماہرہ خان کے ساتھ رقص پیش کر کے بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔
ایوارڈز کی انتظامیہ اور جیوری کے فیصلے کے سامنے کون بول سکتا ہے، کیوں کہ اب حکومتی سطح پر نیشنل ایوارڈز کے سلسلے بند ہوگئے۔ نگار ایوارڈز ماضی کا حصہ بن گئے۔ نگار ایوارڈز کو پاکستان کا آسکر بھی کہا جاتا تھا۔ لاہور میں نگار کی کئی برس تک ایوارڈز تقاریب ہوتی رہیں۔ اب یہ سلسلہ تھم گیا۔ امید ہے ایک مرتبہ پھر سے نگار ایوارڈز شروع ہوں گے، کیوں کہ اب معیاری فلمیں تیزی سے بن رہی ہیں۔
تو ہم بات کررہے تھے!! لکس اسٹائل ایوارڈز کی رنگینیوں کا۔ گلابی انگریزی بولنے والی میرا جی، جب ریڈکارپٹ پر آئیں تو بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں، میڈیا سے کِھل کِھل کر باتیں کررہی تھیں، اچانک سپراسٹار ماہرہ خان نے انٹری دی تو سارا میڈیا ماہرہ کی طرف لپک گیا اور میرا جی تنہا کھڑی رہ گئیں۔ اس طرح کے کئی واقعات دل چسپی سے خالی نہیں تھے۔
16سال کا شان دار سفر کام یابی سے مکمل کرنے کے بعد 17ویں لکس اسٹائل ایوارڈز کی رنگارنگ،پروقار اور دیدہ زیب تقریب میں فلم ، موسیقی ، فیشن اور ٹی وی کے ستاروں نے اپنے جلوے بکھیرے اور عمدہ کارکردگی کے اعتراف میں ایوارڈز وصول کیے۔ ریڈ کارپٹ کی میزبانی معروف اداکارہ عائشہ عمر اور علی کاظمی نے کی ، انہوں نے فلم ، فیشن اور موسیقی کی نامور شخصیات نے خوش گوار اور ہلکی پھلکی گفتگو کی ۔ سوشل کارنر کے نام سے منسوب ریڈ کارپٹ میں عامر عدنان، کامیرا، آمنہ الیاس، عینی جعفری، فلم کیک کے ستارے ، عدنان ملک، صنم سعید، آمنہ شیخ، نبیلہ، شازیہ سید اور احسان صہبائی سمیت کئی شریک ہوئے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز اداکارہ ماہرہ خان کی شان دار پرفارمنس سے ہوا، جس میں انہوں نے کمال خوبی سے فیض احمد فیض کی شہرہ آفاق نظم ’’بول کے لب آزاد ہیں‘‘ پیش کی۔ مشرقی موسیقی کے دُھن اور اس نظم پر کتھک کی ماہر، ناہید صدیقی نے اپنی پرفارمنس کے ذریعے عورتوں کو خودمختار بنانے اور بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے اورآگاہی کا پیغام دیا۔ تقریب کی دوسری پرفارمنس بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل اداکار احسن خان اور نسل پرستی کے خلاف سر گرم آمنہ الیاس نے استادنصرت فتح علی خان اور اے آر رحمان کی ترتیب کردہ دُھن گروز آف پیس پر دی۔ اس رقص کی ترتیب و تنظیم وہاب شاہ نے کی، جس نے شرکاء کو محو کردیا۔ تقریب کا اگلا حصہ بچوں کے لیے مخصوص کیا گیا اس حصے کو کیٹ واک پروڈکشن کی فریحہ الطاف نے پیش کیا۔ #meinbhiایک سماجی تحریک ہے، جس کو سرمد کھوسٹ نے تحریر کیا ۔ تقریب میں موجود فن کاروں اور ہنر مندوں کی طرف سے بھرپور داد ملی اور انہوں نے اس مہم کو خوب سراہا۔ تقریب کی منتظم شازیہ سید نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ لکس اسٹائل ایوارڈز پاکستان کی انٹرٹینمنٹ اور فیشن صنعت کی سب سے بڑی تقریب ہے، جس میں ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اعلیٰ کارکردگی پر سراہا جاتا ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت جب ملک میں حالات ناساز ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونماء ہوجاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں تحمل اور برداشت اپنے معاشرے میں پیدا کریں ۔ ایوارڈز کی تقسیم سے پہلے احمد علی بٹ اور واسع چوہدری کی مزاحیہ جوڑی نے اپنے دل چسپ فقروں اور جملوں سے ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔تقریب کے موسیقی کے حصے کی میزبانی عائشہ عمر اور احمد علی بٹ نے کی، جب کہ فیشن کے حصے کی میزبانی کے فرائض علی کاظمی اور آمنہ شیخ نے ادا کیے۔ ٹی وی کے ایوارڈز کے حصے کی کمپئرنگ احسن خان اور ماہرہ خان نے کی، جس کے بعد ساحر علی بگا اور علی عظمت نے اپنی شان دار پرفارمنس سے شرکاء کے دل گرمادیے۔ فلم کے ایوارڈز کے حصے کی میزبانی صنم سعید اور واسع چوہدری نے کی۔ ٹیلی وژن کی کیٹگری میں ڈراما سیریل ’’باغی‘‘ نے تین ایوارڈز اور فلم کیٹگری میں ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ نے تین ایوارڈز اپنے نام کیے۔فیشن کی کیٹگری میں برائیڈل اور پریٹ کی درجہ بندیوں میں ثناء سفینہ نے دو ایوارڈز جیتے۔کئی نئے نام ملکی انٹرٹینمنٹ کے افق پر بلند ہوئے، جن میں آئمہ بیگ، احد رضا میر، صباء قمر، میوزیکل بینڈکشمیر ، علی سیٹھی،علی حمزہ،وقار احسان کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں وہ جنہوں نے اپنی اعلیٰ پرفارمنس سے سال بھر میں پاکستانیوں کے دل جیتے، جن میں گلوکارہ حدیقہ کیانی (البم وجد) ہمایوں سعید (پنجاب نہیں جائوں گی) جاوید شیخ (نامعلوم افراد ٹو )، فیشن کی عکس بندی کے لیے رضوان الحق اور لان کے لیے ایلن کو ایوارڈز دیے گئے۔ماضی کی نامور اداکارہ نشو،سنگیتا،صاحبہ، میرا نے ماہرہ خان اور ماورا حُسین کے ساتھ اسٹیج پر جلوے بکھیرے اور شرکاء کی توجہ کا مرکز بنیں۔
تقریب کے اختتام میں آرکیسٹرا نے موسیقی کی دُھنیں چھیڑیں، جس میں ’میں بھی‘ مہم کا ترانہ پیش کیا گیا، جسے نئے اور نامور سنگرز ، ریپرز،راک سٹار اور قوالوں نے ایک ساتھ پیش کیا۔یہ ایک بہت ہی خوب صورت لمحہ تھا، جب ابو فرید ایاز اور گلوکارہ حمیرا چنا جیسی قدآور گائیک نے پاکستان کے ابھرتے ہوئے نئے گائیکوں بشمول کشمیر، سائونڈ آف کولاچی، لیاری انڈر گرائونڈ، عابد بروہی، وکاجی سسٹرز، نتاشا بیگ،آئمہ بیگ، مسرت مصباح اور تیزاب گردی کی شکار مظلوم خواتین، مختاراں مائی، انصار برنی، ماہین خان، ظہرین امام کے شانہ بشانہ شہزاد رائے کے گانے ’کیا ڈرتا ہے‘ کی طرز پر بنے ’میں بھی‘ مہم کا ترانہ پیش کررہے تھے۔اس دُھن کو شانی حیدر نے ترتیب دیا تھا۔ فریحہ الطاف نے اس موقع پر کہا کہ ’بتیس موسیقاروں اور چالیس نفوس پر مشتمل آرکیسٹرا، سماجی کارکنان، اور جن پر ظلم ہوا ہے، وہ سب اس پرفارمنس میں شریک ہوئے تاکہ ’میں بھی‘ مہم کے اغراض و مقاصد کو عام عوام کے علم میں لایا جاسکے۔ میں شہزاد رائے کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں اور جنہوں نے بھرپور معاونت کی تاکہ ہم ایک ایسا ترانہ بناسکیں جو ہمارے اصل جذبات کی ترجمانی کرے اور این جی اوز اور خیراتی اداروں کی آواز بن سکے۔مجھے پوری امید ہے کہ یہ ترانہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مہم کیٹ واک کیئر کی جانب سے شروع کی گئی ہے تاکہ انسانی حقوق کے لیے سب اپنا کردار ادا کریں۔ انٹرٹینمنٹ صنعت کی اعلیٰ کارکردگی کو سراہانے کے ساتھ ساتھ اس سال لکس اسٹائل ایوارڈز نے ایسے حساس موضوعات پر بھی لب کشائی کی ہے، جن پر بات نہیں ہوتی۔ ایوارڈز کی تقریب رات گئے جاری رہی، جس میں پاکستانی ثقافت کے رنگ بکھرے گئے۔شوبزنس کی نام ور شخصیات کی شرکت نے چار چاند لگادیے۔