• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے الیکشن مکمل ہوئے۔ کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت کی یہ کامیابی ہے۔ اگر کوئی سمجھے تو اصل میں سیاست ایک بار پھر بدنام ہوئی اور سیاسی گندگی میں اضافہ ہوا۔ الزام لگائے گئے کہ سینیٹ الیکشن ایک بار پھر دھاندلی کا شکار ہوئے، ہارس ٹریڈنگ ہوئی، ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی۔ کامیاب ہونے والے خوش لیکن شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو جس نے ماضی کی طرح اس بار بھی سینیٹ انتخابات میں پیسہ کے کردار سے انکار کیا ہو اور ہارس ٹریڈنگ کی شکایت نہ کی ہو۔ سیاستدانوں کے اپنے بیانات کے مطابق گویا سینیٹ کے انتخابات میں ایک بار پھر سیاسی منڈی لگی، نجانے کتنے ضمیر بکے اور کتنے میں بکے اور پھر اس کے نتیجے میں جمہوریت مضبوط ہو گئی!! واہ کیا لاجک ہے۔فاٹا سے سینیٹ کے امیدوار نظام الدین سالارزئی کا کہنا تھا کہ فاٹا میں سینیٹ انتخابات کے لیے ریٹ نوے کروڑ تک پہنچ گیا تھا۔آفتاب شیرپائو نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ پیسہ خیبر پختون خواہ میں استعمال ہوا، حکومتی (پی ٹی آئی) کے بھی اٹھارہ سے بیس اراکین اسمبلی کو خریدا گیا جبکہ شیر پائو کی اپنی پارٹی کے دو اراکین نے اُن کے خلاف ووٹ دیا۔ جیو کے رپورٹر امین حفیظ نے جرگہ پروگرام میں بتایا کہ پنجاب میں بھی چمک نے کام کیا جبکہ کراچی سے جیو کے رپورٹر افضل ڈوگر نے کہا کہ کراچی میں سینیٹ انتخابات کے لیے سات کروڑ روپے کا ریٹ تھا۔ ڈوگر نے یہ بھی الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کے گیارہ سے بارہ اراکین اسمبلی نے بھی سیاسی کرپشن کی اس گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ بلوچستان میں بھی پیسہ چلنے کی بات کی گئی۔ پنجاب سے ن لیگ کی امیدوار برائے سینیٹ عظمی بخاری اپنی شکست پر رو رو کے بے حال ہو گئیں اور اپنی ہی جماعت کے اراکین پر بکنے کا الزام لگا دیا۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیوایم چاروں سیٹیں جیت سکتی تھی لیکن اُن کے پارٹی کے چودہ ممبران صوبائی اسمبلی بک گئے۔ فنگشنل لیگ کے رہنمائوں نے الزام لگایا کہ سندھ میں سینیٹ انتخابات کے لیے اراکین اسمبلی کی خریداری کے لیے وزیر اعلی ہائوس کو استعمال کیا گیا۔ عمران خان نے اپنے بیان میں کہا سینیٹ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر شرمناک ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت ہوئی، عوام نے اپنے نمائندوں کو بڑی بولی لگانے والے کے ہاتھوں بکتے دیکھا۔ گویا ہر طرف سے سیاسی منڈی لگنے اور اراکین اسمبلی کے بکنے کی باتیں ہوئیں۔ ثبوت کسی نے پیش نہ کیا لیکن سینیٹ الیکشن کی اُس گندگی کا تقریبا ہر ایک نے ذکر کیا جس کی شکایت ہر سینیٹ الیکشن میں کی جاتی ہے۔ لیکن حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ اس گندگی سے اگر اتنی شکایت ہے تو اُسکو صاف کرنے کے لیے تدبیر کیوں نہیں کی جاتی۔ اٹھارویں ترمیم کے موقع پر آئین پاکستان کی ایک ایک شق کو پڑھا گیا تا کہ نقائض کو درست کیا جائے، انتخابی اصلاحات کے نام پر تقریباً تین سال تک پارلیمنٹ سوچ بچار کرتی رہی اور ایک لمبا چوڑا اصلاحاتی پیکچ بھی منظور کیا جس کا مقصد انتخابی عمل کو شفاف بنانا تھا لیکن سینیٹ کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے کچھ نہ کیا گیااور یوں سیاست کو بدنام کرنے کے اُس دروازہ کو کھلا رکھا جس کی گندگی سے ہر سیاسی جماعت اور ہر رکن پارلیمنٹ خوب واقف ہے۔جب اراکین اسمبلی کی منڈی لگے گی اور سینیٹ ووٹ پیسہ کی بنیاد پر بکے گا تو پھر اُن اراکین اسمبلی جو بکے یا جنہیں خریدا گیا اور وہ سینیٹر جو پیسہ کے زور پر منتخب ہوے سے کسی اچھائی کی کیاتوقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کریں گے۔ سب سے اہم بات جب ایسی گندگی پارلیمنٹ میں موجودہے تو اُس سے جمہوریت کیسے مضبوط ہوتی ہے؟؟ یہ نکتہ اگر کوئی سمجھا دے تو اُس کی بڑی مہربانی ہو گی۔ ایسے ماحول میں کسی کو کوئی کیا مشورہ دے یا بہتری کی کیا توقع رکھے۔ جنہوں نے سب کچھ جانتے بوجھتے سینیٹ انتخابات کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی وہ اب کیا کریں گے۔ سینیٹ کے انتخابات ہو چکے، خریدو فروخت مکمل ہوئی، کوئی مسئلہ نہیں میڈیا دو چار دن شور کرے گا پھر سب بھول جائیں گے اور یوں سیاست میں پیسہ کمانے کا یہ دھندا ایسے ہی چلتا رہے گا۔ افسوس صد افسوس!!

تازہ ترین