• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوان بالا کے انتخابات ہو چکے۔ بعض ناتجربہ کاروں کو نتائج میں شاید کچھ غیر متوقع نظر آئے لیکن حقیقتاً ایسا کچھ نہیں ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کو جیتنا ہی تھا۔ مسلم لیگ بارھویں سیٹ ایک ہی شکل میں حاصل کر سکتی تھی کہ وہ اپنے ووٹرز کو چھ حصوں میں بانٹ کر ساتویں کو بچ جانے والے ووٹ سپرد کرنے کے بجائے اپنے ووٹوں کو سات برابر حصوں میں تقسیم کرتی مثلاً مسلم لیگ چھ ممبران کو چھیالیس (46)ووٹ دینے کے بجائے سب کو برابر برابر ووٹ تقسیم کر دیتی تو مسلم لیگ کے ہر امیدوار کے حصے میں تقریباً اکتالیس (41)ووٹ آتے۔ تحریک انصاف کے امیدوار پہلی ترجیح کے چالیس ووٹ بھی حاصل کرتے تو میدان سے باہر ہو جاتے۔ فرض کریں ان کے ووٹ (ن) کے ووٹ سے زیادہ ہوتے تو بھی مسلم لیگ گیارہ سیٹیں بہرحال جیت ہی رہی تھی لیکن ووٹ برابر بانٹنے کی شکل میں تحریک انصاف کے میدان سے باہر نکل جانے کے امکانات زیادہ تھے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ممبران کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے یا ان سے ووٹ نمبر 2کیلئے سمجھوتہ کرتے اس صورت میں امکان تھا کہ چوہدری سرور کے تقریباً چالیس ووٹ جو براہ راست انہیں ملتے اور جونہی کم ووٹ والے میدان سے باہر ہوتے تو دوسرے یا تیسرے نمبر پر تحریک انصاف کا امیدوار بھی مقابلے سے باہر ہو جاتا اور مسلم لیگ ن پنجاب سے ساری سیٹیں حاصل کر سکتی تھی۔ انتخاب میں نامزدگی کے اگلے دن تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری سرور سے ملاقات ہوئی تو انہیں عرض کیا تھا کہ آپ آسانی سی جیت جائیں گے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کو دستبردار کروانے کی ضرورت نہیں ان سے نمبر 2کیلئے کہا جائے تو یہ کافی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ کے چند ووٹ ایسے بھی تھے جو چوہدری سرور کو مل ہی جاتے اس لئے کہ وہ آئندہ مسلم لیگ میں اپنا سیاسی مستقبل تاریک دیکھتے ہیں۔ آئندہ کیلئے وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔ مسلم لیگ نے نواز شریف کو خوش کرنے کیلئے زبیر گل کو جیتنے والی چھ سیٹوں میں رکھا اور ملتان کے رانا محمود الحسن کو آخر میں بچ رہنے والے ووٹ فراہم کئے۔ وہ یہ بات یاد نہ رکھ سکے کہ ملتان کے رانا سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ مسلم لیگ کے بعض ممبران انہیں ووٹ دینا پسند کریں گے اور پارٹی کی بے وفائی کے الزام سے بھی بچ رہیں گے۔ زبیر گل کے متنازع کردار کو میڈیا نے خوب اچھالا چنانچہ بعض ممبران نے ضمیر کو دبائے بغیر اپنی جماعت سے وابستگی بھی نبھائی اور اپنی مرضی سے ووٹ بھی ڈالا۔
پنجاب میں ایوان بالا کی رکنیت کیلئے ووٹوں کی خرید و فروخت کا رواج نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ سینیٹ کی سیٹ جیتنے کیلئے ممبران کی بہت زیادہ تعداد درکار ہوتی ہے چنانچہ مہنگے داموں اتنے زیادہ ووٹ کسی بھی خریدار کیلئے مشکل ہیں اور سستے میں بکنا ممبران کے شایان نہیں۔ دوسری وجہ یہاں پر پارٹیوں کی گرفت نسبتاً مضبوط ہے۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تھی تب اور اب جبکہ پیپلز پارٹی نکل گئی تو اس کی جگہ تحریک انصاف کے پاس ہے اور تحریک انصاف کی مقبولیت روز افزوں ہے چنانچہ کوئی ممبر مشکوک بننا پسند نہیں کرتا۔
85ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد پنجاب اور بلوچستان ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی لعنت سے بچ رہے تھے۔ خیبر پختونخوا میں اگرچہ خرید و فروخت ہوئی مگر محدود پیمانے پر، اس وقت صرف کمانڈر خلیل پر چند ووٹوں کی خریداری کا الزام تھا۔ اس کے برعکس سندھ میں وسیع پیمانے پر خرید و فروخت ہوئی تھی اور کراچی کے صنعتکار بڑی تعداد میں ایوان بالا پہنچ گئے۔ جو بدعت کراچی سے شروع ہوئی تھی وہ جماعتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی وجہ سے دم توڑ گئی اس لئے کہ اب ایم پی اے فروخت نہیں ہوتے تھے مگر جماعتوں کے قائدین نے ان کی جگہ بکنا شروع کر دیا تھا۔ موجودہ انتخابات میں ایم کیو ایم چھوڑ جانے والے آٹھ ممبران جو پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہو گئے تھے ان کے سوا باقی سب نے پیپلز پارٹی سے ساز باز کرلی۔ اس ساز باز میں زرداری کی ہوشیاری کو اتنا دخل نہیں جتنا ایم کیو ایم کا عین انتخاب کے دنوں میں بکھر جانا اور اسمبلی ممبران کا غیر یقینی سیاسی مستقبل ہے جس نے ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی‘‘ پر ہاتھ ڈال دیا۔
بلوچستان میں دو الگ الگ انداز فکر کام کرتے ہیں۔ بلوچ حصے میں قبائلی وابستگیاں بہت مضبوط ہیں۔ چنانچہ وہ اپنا ووٹ ان کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ پختون پٹی پر ایک طرف مذہبی سیاسی جمعیت علماء اسلام دوسری طرف قوم پرست پارٹیاں ہیں وہ اپنے سینیٹر منتخب کروا لیتی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں اس صوبے میں جمعیت کے کچھ ووٹ کھسک لئے تھے۔ اب کے بار بلوچستان میں کچھ بھی خلاف توقع نہیں ہے۔ بلوچستان کے بلوچوں کو نواز شریف تجربہ کبھی راس نہیں آیا۔ بگٹی بھی مسلم لیگ کے بارے بری رائے رکھتے تھے مینگل اور مری بھی، قوم پرستوں کے ایما پر پہلی دفعہ مسلم لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت بنی، ڈاکٹر مالک کو چلنے دیا جاتا تو ٹھیک تھا مگر ثناء اللہ زہری سے وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کیلئے پوری مدت صبر نہ ہو سکا۔ انہوں نے آدھی مدت میں پوری مدت کی کسر نکالنے میں دوستوں کو ناراض کر دیا۔ بلوچستان حکومت تبدیل کرنے میں زرداری کی ہوشیاری کو اتنا دخل نہیں جتنا وزیر اعلیٰ کی اپنی کوششوں کا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اندر 85ء میں جو چھوٹا سا بیج بویا گیا تھا اس کو شمال مغرب کی فضا خوب راس آئی یہاں پیپلز پارٹی نے اس کی آبیاری کی، ہوا یہ کہ ممبران کی تعداد کے مطابق اپنے سینیٹر بنا لئے ساتھ ہی شہرت یافتہ گلزار صاحب کو تائید اور تجویز کنندہ فراہم کر کے اپنے طور پر سینیٹر بننے کی مہم سونپ دی۔ وہ مہم سر کرنے میں کامیاب رہے۔ پھر یہی ان کا معمول بن گیا نہ صرف زندگی بھر خود اس طرح سینیٹر منتخب ہوتے رہے بلکہ انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی ممبر بنوا لیا۔ وہ آسانی سے دو سیٹیں ہتھیا لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اے این پی، فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی تک سب کو نیچا دکھایا کہ ان کے وفاداروں کو بھی درون خانہ وفاداریاں بدلنے پر راضی کرلیا۔ یہ خاندان آخرکار پرویز خٹک کے ہاتھوں میدان سے باہر ہوا۔ ایک ایسا موقع بھی آیا جب پرویز خٹک تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے سینیٹر گلزار کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں ووٹ دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے گلزار سے کہا ووٹ دے دیتا لیکن میرے ووٹ دینے سے کوئی نہیں سمجھے گا کہ میں نے بکے بغیر آپ کو ووٹ دیا۔ اس الزام سے بچنے کی خاطر میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ چنانچہ ان کی یہ کارکردگی بعد میں وزیر اعلیٰ بننے کا باعث ثابت ہوئی۔ مرحوم گلزار اس ’’بے ایمانی کے کاروبار میں نہایت دیانتدار تھے‘‘۔ ان کے آخری انتخاب میں مطلوبہ تعداد سے ایک ووٹ کم تھا وہ ووٹ انہوں نے مروجہ قیمت سے ڈیڑھ گنا میں خریدا تو باقی فروخت کنندہ کو دیانتداری سے یہ بھی بتا دیا کہ سب سے مہنگا ووٹ کس قیمت پر خریدا ہے اور اپنے تمام ووٹرز کو بھی یہ اضافی رقم ادا کی گئی۔ اس دیانتداری پر ہر کوئی ان کا مداح ہے۔
ایوان بالا کے انتخابات بخیر انجام پائے۔ اب چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب درپیش ہے۔ ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ مولانا فضل الرحمٰن شاید نہیں ہتھیا سکیں گے۔ چیئرمین سینیٹ کیلئے اگر نواز شریف دل سے چاہیں اور وزیر اعظم بھی راجہ ظفرالحق سے اپنی سیاسی مخاصمت کو بھول جائیں تو وہ بآسانی چیئرمین بن سکتے ہیں۔ زرداری کی چالاکی انہیں ضرر رساں نہیں ہو گی البتہ میاں صاحب کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ اگر زرداری ان کی کڑی شرط مان سکیں یعنی محاذ آرائی میں ان کا ساتھ دیں تو پیپلز پارٹی اس دفعہ بھی یہ عہدہ لے سکتی ہے۔ ویسے بھی راجہ ظفر الحق کے مقابلے میں رضا ربانی نواز شریف کیلئے زیادہ کارآمد ثابت ہوں گے۔ بس یہی نقطہ راجہ صاحب کی راہ کا بھاری پتھر ہے ورنہ چیئرمین بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
ایوان بالا میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سے نجات کا کوئی قانونی راستہ نہیں البتہ آئینی راستہ موجود ہے کہ امریکہ کی طرح ایوان بالا کے انتخابات بھی براہ راست کروائے جائیں۔ اس صورت میں ایوان کے اختیارات کو بھی بڑھانا ہو گا خصوصاً بجٹ کے اختیارات بھی دینا پڑیں گے۔

تازہ ترین