• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیسے سے بھرپور الیکشن ہو گیا ہے۔ قوم کو مبارک ہو کہ غریبوں کی نمائندگی کے لئے اعظم سواتی، امام دین شوقین، اسحق ڈار، ہارون اختر اور طلحہ محمود سمیت اعلیٰ مالی حیثیت رکھنے والے چند اور افراد سینیٹ کے ممبران بن گئے ہیں۔ مغربی طرز جمہوریت اکثریت کی رائے کا نام ہے، ملک کی اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے اور سینیٹ الیکشن جیتنے والے اکثر افراد کا غریبوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔یہی پاکستانی جمہوریت کی بدقسمتی ہے۔ یہاں اکثریت محکوم ہے اور اقلیت حکومت کر رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ کھیل جاری ہے ۔ کراچی سے متوسط طبقے کی ایک جماعت اٹھی تھی وہ بھی ٹیسوری کی نذر ہو گئی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں فیصل جاوید خان، بہرہ مند تنگی اور کرشنا کوہلی کو چھوڑ کر باقی افراد غریب یا متوسط طبقات کی نمائندگی نہیں کرتے۔آپ کسی حد تک مشاہد حسین سید، آصف کرمانی ، مولا بخش چانڈیو اور پیر صابر شاہ کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ متوسط طبقوں کے نمائندے ہیں۔ اگر ان افراد کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی پاکستان میں جمہوریت کی اصلی تصویر بنانے میں سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں۔ سینیٹرز بن گئے ہیں اب نئے چیئر مین کے لئے بولیاں لگیں گی۔ اس سلسلے میں کئی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر قیوم سومرو پشاور میں کام دکھانے کے بعد ’’کوئٹہ مشن‘‘ پر جا چکے ہیں۔نواز حکومت نے بھی اپنے دو وزراء کوئٹہ بھیج رکھے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں میں سے صرف عمران خان نے کھل کر اظہار کیا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں منڈی لگی اور یہ بات جمہوریت کے لئے شرمناک ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اس نازک مرحلے پر خاموش ہیں۔
سینیٹ الیکشن کے دن حمیدالحق نے بتایا کہ فاٹا میں ایک ووٹ کی قیمت 32کروڑ تک پہنچ گئی ہے ۔ شیخ رشید احمد بتا رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ایک ایک ووٹ کی قیمت پانچ پانچ کروڑ تھی۔چوہدری سرور کی جیت پر عظمیٰ بخاری نے آنسو بہائے۔ کہنے لگیں’’یہ گندی سیاست ،پیسے کی سیاست یہ شخص برطانیہ سے لایا۔‘‘ عظمیٰ بخاری صاحبہ اگر برا نہ لگے تو اس شخص کو آپ کی پارٹی برطانیہ سے لائی تھی، ن لیگ ہی نے چوہدری سرور کو گورنر بنایا۔ اب مریم اورنگزیب پوچھ رہی ہیں کہ چوہدری سرور نے 44ووٹ کیسے حاصل کئے؟اس کا سادہ سا جواب ہے کہ چودھری سرور نے اسی طرح ووٹ لئے جس طرح خیبر پختونخوا میں ن لیگ کے حمایت یافتہ دلاور خان نے لئے، ویسے آپ کو پتہ تو ہو گا کہ امیر مقام ان کاموں کے ماہر ہیں انہوں نے فاٹا میں بھی کھیل کھیلا، جس کی نشاندہی ن لیگی رکن شہاب الدین نے کی ہے۔
خواتین و حضرات!میں آپ کو چاروں صوبوں کی پوری باتیں تو نہیں بتائوں گا کیونکہ پوری باتوں کے لئے کئی کالم لکھنا پڑیں گے اس لئے آپ کو صرف ذائقے کے طور پر ایک ایک دو دو باتیں بتائوں گا۔ مثلاً خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے کئی اراکین بک گئے۔ خریداروں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ طلحہ محمود بھی تھے۔یعنی جے یو آئی ف، جماعت اسلامی نے اے این پی کی مدد سے اپنا سینیٹر تو بنوا لیا مگر اے این پی کی خاتون امیدوار شگفتہ ملک کو جیت سے محروم کر دیا، شیر پائو کی پارٹی کے دس اراکین اسمبلی ان کے کام نہ آسکے ،بلکہ کسی اور کے کام آگئے۔ جماعت اسلامی ، اے این پی کی خاتون امیدوار شگفتہ ملک کو پیپلز پارٹی سے نہ بچا سکی۔ چونکہ شگفتہ ملک دو ووٹوں سے ہاری اس مرحلے پر خریداری پیپلز پارٹی نے کی۔ خیبر پختونخوا میں سب سے انوکھا کام مولانا سمیع الحق کے ساتھ ہوا، انہیں صرف تین ووٹ ملے۔ لوگ پیسے د ےکر سینیٹر بنے ہیں۔ مولانا صاحب پیسے لے کر بھی سینیٹر نہ بن سکے۔ خیبر پختونخوا میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کام دکھایا، پنجاب میں چوہدری سرور اور شہزاد علی خان کو توقع سے زیادہ ووٹ ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ ن لیگ کے ووٹ بکے، ویسے مجھے پتہ ہے کہ آخری رات بھی ن لیگ کے چار پانچ ممبران بکنے کے لئے تیار تھے مگر شاید ان کا سودا نہ ہو سکا ہو کیونکہ عید کے تیسرے دن کی شام ہو گئی تھی۔ پنجاب سے چوہدری سرور تو سینیٹر بن گئے مگر میاں منظور وٹو کے داماد سینیٹر نہ بن سکے۔ سندھ میں بھی ووٹ ادھر ادھر ہوئے۔ اسی لئے تو ایم کیو ایم کے صرف فروغ نسیم سینیٹر بن سکے۔ فاروق ستار کو پانچ باجیوں پر بہت غصہ ہے۔ شازیہ مری کو مبارک ہو کہ ان کی بہن عینی مری سینیٹر بن گئی ہیں۔ کرشنا کوہلی کو زیادہ مبارک اس لئے کہ دلتوں کا تو بھارتی پارلیمنٹ میں جانا مشکل ہے یہاں ایک دلت لڑکی سینیٹر بن گئی ہے ۔ یہاں اگر سندھ کی ایک باہمت خاتون کا ذکر نہ کیا جائے تو غلط ہو گا۔ اس بہادر خاتون کا نام روبینہ قائم خانی ہے۔ روبینہ قائم خانی کے جواں سال بیٹے کی لاش ابھی دفن نہیں ہوئی تھی کہ وہ ووٹ کا فرض ادا کرنے سندھ اسمبلی چلی گئیں۔ اس سے ان کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ جب کچھ دنوں بعد روبینہ قائم خانی غم کی کیفیت سے نکل کر نارمل لائف میں آئیں تو پارٹی ان کی ہمت اور حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تقریب منعقد کرے۔
اب جب سینیٹ کے چیئر مین کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہے، بولیوں کے بعد سینیٹرز بنے تھے اب چیئر مین کے لئے بولیاں لگنے جا رہی ہیں۔ ایسے میں ہو سکتا ہے کہ سینیٹ الیکشن ہی کالعدم قرار دے دئیے جائیں کیونکہ کچھ معاملات ایسے ہیں کہ ان کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔مگر چلو ہم بزرگ سیاستدان کرم علی شاہ کی بات مان لیتے ہیں وہ کہتے ہیں پیپلز پارٹی پیسوں کا لین دین نہیں کرتی ۔ لوگ اسے رضاکارانہ طور پر ووٹ دیتے ہیں۔
برادر بزرگ عطاء الحق قاسمی کا معاملہ کورٹ میں ہے، ان کی تقرری سے متعلق فیصلہ ایک دن تک سنا دیا جائے گا۔ میں عدالتی معاملے پر تو کوئی بات نہیں کروں گا البتہ کچھ اور باتیں لکھنا چاہتا ہوں۔ جناب مجیب الرحمن شامی لکھتے ہیں کہ ’’عطاء الحق قاسمی ایم اے ہیں، ٹیچر رہے، گریڈ بیس کے پروفیسر رہے، سفیر رہے، ڈرامہ نگار، ادیب، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ اردو ادب کے چوٹی کے مصنّفین میں سے ہیں، ان کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ ان کی کیا کوالیفکیشن ہے اگر اس درجے کا آدمی پی ٹی وی جیسے ادارے کا چیئر مین نہیں ہو سکتا تو کہاں آسمان سے لوگ لائیں گے؟‘‘
شامی صاحب نے درست کہا ، عطاءالحق قاسمی اور بھی خوبیوں کے مالک ہیں، وہ ایک ہنس مکھ انسان ہیں، ان کے والد مولانا بہاء الحق قاسمی اعلیٰ آدمی تھے ، انکے بھائی ضیاء الحق قاسمی بڑے مزاحیہ شاعر تھے۔ انکی ایک بہن بہت شاندار لکھاری ثابت ہوئیں۔ انکے فرزند یاسر پیرزادہ (اپنے راوین)شاندار کالم نگار ہیں۔ یقین کیجئے قاسمی صاحب کا قلمی قد کاٹھ چور لٹیرے سیاستدانوں سے کہیں اونچا ہے۔ کچھ نام نہاد بیورو کریٹس بھی ایسے ہیں کہ انہیں ایسا دانشور اچھا نہ لگا۔چند بونے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے مل کر قاسمی صاحب کیخلاف کھیل تیار کیا، بات کو 27کروڑ تک پہنچا دیا، قاسمی صاحب کے خلاف مہم چلائی، گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ پی اے سی تک رہے گا اور ہم لوگ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں عطا الحق قاسمی کو ر گڑ دیں گے۔ جونہی معاملہ کمیٹی کے سامنے آیا تو خورشید شاہ نے حیرت کا اظہار کیا، اگلے دن چیف جسٹس نے سوموٹو الیکشن لیا، اب معاملہ عدالت میں ہے اور قاسمی صاحب کیخلاف کھیل تیار کرنے والے پچھتا رہے ہیں ۔ ان کی تقرری کا طرز عمل غلط ہو سکتا ہے مگر ان پر کرپشن ثابت نہیں ہو گی۔ اس مرحلے پر میں اپنے مہربان دوست عطاءالحق قاسمی سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کبھی آپ کسی دن سوچئے کہ جن کی تعریفوں سے آپکی تحریریں چمک رہی ہوتی ہیں، اس خاندان کا جائزہ لیں، کیا اس خاندان میں کوئی پروفیسر ہے، کوئی ڈاکٹر ، کوئی انجینئر ، کوئی سی ایس پی افسر، کوئی وکیل ، کوئی جج یا کوئی دانشور ؟آپ کو جواب نفی میں ملے گا، ہاں انکے پاس دولت کے ڈھیر ملیں گے مگر وہ آپ کو یہ نہ بتائیں گے کہ لندن میں فلیٹس کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟
قاسمی صاحب آپ بڑے آدمی ہیں، لوگ آپ کے لکھے ہوئے لفظ عقیدت سے پڑھتے ہیں، آپ ایک سچے پاکستانی ہیں مگر جب آپ کی تحریریں ایک ایسے شخص کے حق میں آئیں جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحد کو صرف لکیر کہتا ہو، جس کو ہندوستان بہت پیارا لگتا ہو تو پھر ایسے میں بے شمار سچے پاکستانی آپ کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟آپ ہی نے کہا تھا کہ
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے

تازہ ترین