• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تحریر بالغوں کے لئے نہیں بلکہ سیاسی اور غیر سیاسی نابالغوں کے لئے ہے۔ دراصل تو یہ بچوں کی دنیا کی کہانی ہے جس میں دو بچے، بچہ جمورا اور بچہ جمہورا آپس میں محو گفتگو ہیں، بچہ جمورا گملے میں پلا بڑھا ہے تلواروں اور تیروں کے سائے میں پرورش پائی ہے جبکہ بچہ جمہورا گلی محلے میں پروان چڑھا ہے، عوام کے درمیان دھکے کھائے ہیںاور اس میں عوامی رنگ زیادہ ہے۔ آیئے طفلستان کے ان دو بچوں کا سیاسی مکالمہ سنیں، ہو سکتا ہے کہ اس میں کئی اشارے ایسے ہوں جن سے آئندہ کی صورتحال کا اندازہ ہوسکے۔
بچہ جمورا:ملک بہتر ہو رہا ہے۔ رونے پیٹنے سے کچھ نہیں ہو گا احتساب ہو کر رہے گا، کرپٹ اور نااہل قیادت کا ناطقہ بند ہو گا۔
بچہ جمہورا:عدالتی فیصلوں سے سیاست کی سمت کا تعین نہیں ہوتا۔ سیاست کے فیصلے سیاسی میدان میں ہوتے ہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں تو اکثر ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔
بچہ جمورا:اب نئی قیادت، نیا زمانہ ہو گا۔ اب ماضی کے حکمرانوں کو کون پھر سے موقع دے گا یہ جیلوں کی سیر کریں گے، مقدمات بھگتیں گے، جائیدادوں کا حساب کتاب پیش کریں گے یہ سیاست کو بھول جائیں شریفوں کے بعد زرداریوں کی باری ہے۔
بچہ جمہورا:عوامی طاقت کو جیلیں، مقدمے اور احتساب روک نہیں سکتے۔ عوامی طاقت بروئے کار آئے گی تو یہ قانون ضابطے نااہلیاں سب بدل جائیں گی۔ پارلیمان سب کچھ بدل سکتی ہے۔
بچہ جمورا:ایسی ایک کوشش اکتوبر 2017ء میں کی گئی ایک سابق وزیر قانون کے لیپ ٹاپ میں اس قانون کا مسودہ موجود ہے جس میں پارلیمان کے ذریعے آرمی چیف کی جگہ سی ڈی ایس کا عہدہ تخلیق کیا جانا تھا، چیف آف ڈیفنس سروسز کو کورکمانڈرز کی تعیناتی اور تقرری کا اختیار نہیں ہونا تھا یہ اختیار وزیر دفاع کے پاس جانا تھا، اسی طرح ججوں کی عمر میں تبدیلی کا قانون بھی تیار تھا تاکہ ’’ایماندار اور غیر جانبدار‘‘ ججوں کو فارغ کر دیا جائے۔ محب وطن حلقوں کو پتہ چلا تو پھر سرخ لکیر لگا دی گئی کہ یہ سب کچھ کرنے نہیں دیا جائے گا۔
بچہ جمہورا:ایسی خبر تو سنی تک نہیں۔ وزیراعظم عباسی کو بھی ایسی خبر نہیں لیکن ظاہر ہے اگر ن لیگ کو مینڈیٹ ملا تو نواز شریف کی نااہلی کی سزا کے خاتمے کے لئے قانون سازی تو ہو گی اور اس سے کونسا آسمان گر پڑے گا۔ اگر آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا جا سکتا ہے تو کیا پارلیمان کو اپنے حقوق کے تحفظ کی قانون سازی کے لئے فوج اور سپریم کورٹ سے اجازت لینے کی ضرورت ہے؟
بچہ جمورا:پارلیمان مادر پدر آزاد نہیں ہر ادارے کے اپنے اختیارات اور حقوق ہیں، پارلیمان کو دوسرے اداروں پر آمریت مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بچہ جمہورا:پارلیمان تو آئین کی ماں ہے خودمختار ہے، عوام نے ووٹ دیئے تو قانون میں تبدیلی لائی جائے گی۔ یہ نہیں رک سکتی۔ کبھی تاریخ کا دھارا بھی رکا ہے؟
بچہ جمورا:اس ملک کے ادارے طاقتور نہ ہوتے تو سیاستدان تو ملک تک بیچ کھاتے، بھارت کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہوتے، امریکہ کی ہر جائز اور ناجائز خواہش مان کر ملک کی خودمختاری کھو چکے ہوتے۔
بچہ جمہورا:ہاہاہا۔ ملک کے دریا جنرل ایوب خان نے بیچے کسی سیاستدان نے نہیں، سیٹو اور سینٹو پر دستخط آمر نے کئے اور تو اور ملک بھی جنرل یحییٰ خان کے دور میں ٹوٹا۔ افسانے چھوڑو اور حقیقت کو جانو۔
بچہ جمورا:سیاستدان تو ملک لوٹتے ہیں اربوں کے قرض لیتے اور ہڑپ کر جاتے ہیں، ترقی ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں ہوئی صنعتی ترقی اور خوشحالی کے اعداد و شمار میری دلیل کی تصدیق کرتے ہیں۔
بچہ جمہورا:ترقی تو ہوئی مگر امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں کے بعد، افغانستان کی دو خون آشام جنگوں میں شرکت کے بعد۔ تو کیا انسانی جانوں کے بدلے معاشی ترقی کا سودا اچھا تھا؟
بچہ جمورا:کرپشن بھی تو اہل سیاست ہی کا وطیرہ ہے، ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ پاکستان کی لوٹ مار سے لندن اور یورپ میں محل بناتے ہیں۔ پاکستان کی غربت کی وجہ سیاستدانوں کی کرپشن ہے۔
بچہ جمہورا:سیاستدانوں کے پاس 30فیصد بجٹ ہے جبکہ 70فیصد اداروں کے پاس۔ 30فیصد سے پورا ملک چلتا ہے تنخواہیں، سڑکیں، اسپتال اور تعلیمی ادارے۔ 70فیصد کا کوئی حساب کتاب نہیں لے سکتا اور 30فیصد پر روز سوال کھڑے کئے جاتے ہیں کیا جنرل مشرف نے لندن اور دوبئی میں جائیدادیں نہیں بنائیں؟ کیا ایوب خان کے بیٹے 22خاندانوں میں شامل نہیں ہو گئے تھے؟ ضیاء الحق کے بیٹے کا کاروبار کیا ہے وہ کیسے زندگی گزار رہا ہے؟
بچہ جمورا:ہر ادارے میں احتساب کا نظام موجود ہے، اداروں میں بہت ڈسپلن ہے ہر کرپٹ کو سزا ملتی ہے، سیاستدان کا کوئی احتساب نہیں، جج اور جرنیل تو تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں بڑی مشکل سے ایک آدھ گھر بناتے ہیں، بچوں کو اچھی تعلیم دلاتے ہیں مگر یہ سیاستدان اور بیورو کریٹ مل کر بیرون ملک منی لانڈرنگ کرتے ہیں اور جائیدادیں بناتے ہیں۔
بچہ جمہورا:طفلستان میں تو صرف سیاستدانوں کا احتساب ہوا ہے، ہر وزیر اعظم کو زبردستی اتارا گیا جبکہ پاکستان توڑنے والے جنرل یحییٰ خان کو قومی پرچم کی سلامی دے کر دفن کیا گیا، یہ تضاد کیوں؟ ایڈمرل منصور اور جنرل زاہد علی اکبر کے خلاف الزامات ثابت ہوئے انہیں زبردستی واپس لایا گیا مگر پھر انہیں چھوڑ دیا گیا، کیوں؟
بچہ جمورا:وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا مشکل ہوتا ہے سیاستدان جرم اس طرح سے کرتے ہیں کہ پکڑے نہیں جاتے۔ مگر اب یہ سارے مجرم پکڑے جائیں گے، ادارے فعال ہو چکے ہیں اور فیصلہ کر چکے ہیں کہ کرپشن اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اگلے الیکشن میں یہ کرپٹ لوگ نہیں ہوں گے۔
بچہ جمہورا:سیاستدانوں کی چھانٹی کا فارمولا، ہر دور میں آزمایا گیا مگر ناکام ہوا۔ ایوب خان نے ایبڈو لگایا، جنرل ضیاء الحق نے سینکڑوں لوگوں کو نااہل کیا اور عدالتوں سے اس پر مہر تصدیق ثبت کروائی، جنرل مشرف نے کبھی بی اے کی ڈگری کے نام پر اور کبھی کسی اور بیانیے سے چھانٹی کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا جبر کم ہوا تو پھر سے وہی بے نظیر اور نواز شریف نکل کر سامنے آ گئے۔ اب پھر ایسا نہ ہوا کہ چھانٹی، احتساب اور سزائوں کے باوجود پھر سے ن لیگ زندہ و تابندہ مگر زخمی حالت میں نکل کر پھر سے کھڑی ہو جائے۔ ایسا ہوا تو کیا ہو گا۔
بچہ جمہورا:یقین رکھو، ایسا کچھ نہیں ہو گا، سب بندوبست ہو چکا ہے (قہقہہ)

تازہ ترین