• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ایک پوزیشن لے لی ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، کوئی پروا نہیں‘‘ نہال ہاشمی کی تازہ ہرزہ سرائی پر چیف جسٹس کا تبصرہ، مائی لارڈ کچھ نہیں ہوگا، قرار واقعی سزا دینا ہوگی۔ بگڑا صرف ترازو، توازن برقرار رکھنے میں ناکام ۔ ’’کسی طور نااہل بادشاہ، بادشاہ گر نہیں رہ سکتا‘‘۔ پارٹی صدر نااہلی پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ۔ یقیناً فیصلہ آئین، ضمیر اور قومی مفاد کے عین مطابق ہی ہے۔ سپریم کورٹ فیلڈ مارشل جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف کا وسیع و عریض تجربہ رکھنے کے باوجود تفریق نہیں کر سکی، بادشاہ کیا ہوتے ہیں؟ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اگر کسی بادشاہ سے پالا پڑتا، تاریخ گواہ، جرأت نہ رہتی کہ میلی آنکھ سے دیکھتے۔ بادشاہ تو پھر بادشاہ، درباری ہرکارہ مصاحب کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والے کی آنکھ پھوڑ دی جاتی۔ فرق دیکھ لیں نہال ہاشمی پر غصہ ختم نہیں ہوتا اور خادم حسین رضوی دائماً آنکھ سے اوجھل ہے۔ قومی عاقبت اندیشی آئین، ضمیر، قومی مفادات کی سربلندی کے پیش نظر مملکت کو مثالی، فلاحی، قانونی، خوشحال بنانے کا جنون ہمارے اداروں کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ قوم متفق کہ مفاداتی ایجنڈا ہے۔ اے میری ’’جاہل قوم!‘‘ اتنی بات تو سمجھو ماریو بوژو کا گاڈفادر، سسلین مافیا اور کرپٹ سیاستدان بیورو کریسی وغیرہ سے نجات، اقامہ پر وزیر اعظم کی معزولی، شفاف ہوا، صاف پانی، خالص دودھ، اصلی ادویات، زرعی اجناس کی مناسب قیمت، نقیب اللہ محسود، زینب وغیرہ کے قاتل ڈھونڈنا، اسپتالوں کی جانچ پڑتال، نظام سیاست کی درستی جیسے گنجلک مسائل کا سامنا، آئین کی پکار، ضمیر کی آواز اور قومی مفادات کی جھنکار نے اداروں کو مجبور کر رکھا کہ انتظامی اختیارات میں دخل جاری رکھیں۔
وطن عزیز بہت جلد سویڈن اور ڈنمارک کا سماں باندھنے کو۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس سے زیادہ مؤثر وسائل کے ساتھ ملاوٹ، غلاظت، جعلی ادویات، شفاف ہوا، صاف پانی، جیسے انواع و اقسام کے لئے چھاپے اور اقدامات سے اپنی اور انتظامیہ کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ الحمد للہ جعلی ادویات، ملاوٹ شدہ خوراک، اسپتالوں کی زبوں حالی، تعلیمی کسمپرسی، پولوشن، کثیف پانی وغیرہ کچھ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ قبل ازیں کئی مارشل لائی دور آئے، زیادہ وسائل اور اختیارات رہے، زمین جنبد نہ جنبد خرافات، جتنا مٹایا اس سے زیادہ ابھرے۔ جو کچھ سامنے ہے دہائیوں کا تسلسل ہی ہے۔ سپریم کورٹ میں دوران سماعت تضحیک آمیز فقرہ بازی، عزت نفس پر حملے، غصے، قسمیں قرآن، وضاحتیں آرڈر آف دی ڈے ہیں۔ صدیق الفاروق کی معزز عدالت سے بحث اور ریویو پٹیشن میں منفرد پوزیشن کہ ’’اگر نواز شریف کے ہاتھوں میری تعیناتی لغو اور فضول ہے تو ایک وقت معزز چیف جسٹس کو ’’لا سیکرٹری اور بحیثیت جج ہائی کورٹ تعینات کرنا بھی نواز شریف کا کارنامہ ہے، دونوں تعیناتیوں کا تقابلی جائزہ ہو گا تو انصاف رہے گا‘‘۔ چند سالوں سے ہماری عسکری قیادت اور فاضل عدلیہ اپنی آواز سے محبت کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر شریک ہو چکی ہیں۔ نیا اضافہ چیئرمین نیب، اس دوڑ میں سب سے سبقت اور بازی لینے کو ہیں۔ لگتا ہے اداروں کے معتبر تسلسل سے میڈیا اور قوم کی نظروں میں جچنا، رہنا، بسنا منزل مقصود بنا چکے ہیں۔ آئین، ضمیر، وسیع تر قومی مفاد سمجھ چکے ہیں۔ تاریخ انسانی، صدیوں سے رہنما اصول ایک ہی، جج بولا نہیں کرتے جبکہ سیکورٹی اداروں کے سربراہ کے فرائض منصبی میں قومی خطاب کبھی شامل نہیں رہا۔ دوسرے ادارے تو کسی کھاتے میں نہیں کہ بڑھکیں ماریں۔ وطن عزیز میں بذریعہ کمنٹس، تقاریر، ٹویٹس، قسمیں، وضاحتیں، اپنی طرف کی اسٹوری عام کرنا اداراتی شعار بن چکا ہے۔ ماضی بعید میں فوج عدلیہ گٹھ جوڑ پر مستند دستاویزات موجود، نصاب کا حصہ بن چکا ہے۔ ماضی قریب کے واقعات کی پکار یہی، کچھ نہیں بدلا۔ کئی واقعات تک آنکھوں کانوں کی براہ راست رسائی رہی۔ ایک مثال کافی، جسٹس افتخار چوہدری کا اقبال بلند، طوطی بولتا تھا۔ عدالتی کمنٹس اور فیصلے اخبارات اور میڈیا کی ٹاپ کہانیاں بنتی تھیں۔ سن2012جمہوری حکومت قائم، آئین کی بذریعہ عدلیہ حکمرانی چار چاند لگا چکی تھی۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ (AWT)نے کراچی اسٹیڈیم کی زمین ناجائز قبضے میں لے رکھی تھی، سوموٹو لے رکھا تھا۔ ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور، 30 دن کے اندر مسمار کرنے کا تاریخ ساز حکم نامہ جاری کیا۔ ننگی آنکھوں سے ایک خط بنام چیف جسٹس پاکستان دیکھا جو 5انتہائی طاقتور شخصیتوں کے دستخطوں سے مزین تھا۔ لرز گیا کہ زندگی میں اس سے زیادہ توہین عدالت نہ دیکھی تھی۔ خط میں ’’مودبانہ گزارش‘‘ اتنی ’’سپریم کورٹ اس کیس سے دور رہے‘‘، سپریم کورٹ نے پذیرائی بخشی۔ زمین جائیداد، تعمیرات، سب کچھ موجود بھی، AWT کے قبضے میں، سوموٹو کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے جونیجو کیس میں جنرل اسلم بیگ کی سپریم کورٹ کو فون کال کا سن رکھا تھا مگر آئینی حکومت نہ تھی۔ جسٹس منیر اے شیخ مربی و مہربان ذاتی گپ شپ میں معلوم ہوا کہ اہم فیصلوں سے قبل مقتدر جرنیلوں کی ایڈوائس آنا معمول تھا۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نسیم حسن نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ’’عسکری اداروں کی طرف سے جب کوئی فرمائش آجائے تو گنجائش نکالنا پڑتی ہے‘‘۔ تکلیف دہ،7دہائیوں سے طاقت نے آئینی اداروں کو مفلوج کر رکھا ہے، ادارے سر تسلیم خم ہیں۔ نواز شریف کو بادشاہ گر بننے سے روکنا، پانامہ بہانا، اقامہ پر گھیرنا۔ نواز شریف نشانہ اور وہ بھی2014 سے، لگتا ہے سب کچھ بمطابق اسکرپٹ ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی گواہی ریاست کی سب سے معتبر گواہی ہی۔ قوم صدق دل سے سب کچھ سمجھ چکی ہے، شعور بیدار رہے۔ قطع نظر نواز شریف قصور وار یا بے قصور، قوم عدالتی فیصلوں سے نالاں ہے، بڑھ چڑھ کر اظہار کر رہی ہے، فیصلوں سے متفق نہیں۔ لاہور، چکوال، لودھراں، سرگودھا، سینیٹ الیکشن، ن لیگ کی مربوطی و مضبوطی تفکرات بڑھا چکی کہ وطنی نظام براہ راست قومی آئین، قومی ضمیر، قومی مفادات کی زد میں ہے۔ رائے عامہ کا رونا یہی کہ الیکشن دھاندلی، پانامہ، اقامہ سب عذر، مقصد نواز شریف کو مائنس رکھ کر عنان سیاست ہاتھ میں لینا ہے۔
سینیٹ الیکشن پر ن لیگ کو اکثریت سے محروم رکھنے کے لئے مضحکہ خیز، تکلیف دہ انوکھا فارمولا وجود میں آیا۔ کئی مہینوں سے تگ و دو یہی۔ الیکشن سے دو ماہ پہلے بلوچستان حکومت ضمیر اور قومی مفاد کی بھینٹ چڑھ گئی۔ تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا، نہ صرف ضمیر اور قومی مفاد مانع بلکہ ذاتی صحت کے لئے بھی مضر۔ سینیٹ الیکشن میں دہری شہریت پر ترت ایکشن قابل تحسین، کاش بلوچستان حکومت پر شب خون اور ن لیگ کے نشان کی غیر موجودگی، اربوں روپے کی سینیٹ منڈی بھی آنکھ اوجھل نہ رہتی؟ مسلم لیگ ن کے سینیٹ امیدواروں سے پارٹی ٹکٹ واپس لینا، واردات جانی گئی۔ کیا قباحت اگر ایک اضافی نوٹ لف رہتا کہ ’’مسلم لیگ ن کے چیئرمین نئے پارٹی ٹکٹ ایشو کر دیں‘‘۔ یقیناً مقاصد اعلیٰ و ارفع تھے، وگرنہ سپریم کورٹ سے تجاہل و تغافل بارے سوچنا، گناہ کبیرہ ہے۔ مان ہی نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کو ادراک نہ ہو کہ آزاد امیدواروں کی موجودگی میں خریدو فروخت، ڈرائو دھمکائو آسان رہنا تھا۔ سب سے زیادہ ترس اور حیف سرگودھاPP30کے سندھو صاحب پر جو خواہ مخواہ تاریک راہوں میں پھنس گئے۔ ن لیگی امیدوار کی مہم آخری دموں پر، لاکھوں کی اشتہاری مہم پر نشان شیر ثبت، سینکڑوں مربع میل پر پھیل چکی تھی۔ چند دن پہلے ’’پک اپ ٹرک‘‘ کے نشان پر الیکشن لڑنا پڑا، عوام نے زناٹے دار تھپڑ بیچ منہ پر مارا، سرگودھا کی جیت نے نواز شریف سیاست کو مزید چار چاند لگا دیئے، پورے پنجاب پر مستحکم کنٹرول کی یہ آخری مہر تھی، ثبت ہوئی۔
ایسے حالات میں سینیٹ کا الیکشن، لاہور، چکوال، لودھراں، سرگودھا کے الیکشن جیتنا، نواز شریف کو ناقابل تسخیر بنا چکے۔ ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ ، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، انقلابی نعرے بن چکے ہیں،2018 کا الیکشن اس نعرے پرایک ریفرنڈم رہنا ہے۔
آئینی و قانونی تفویض شدہ اختیارات بمطابق آرٹیکل 184(3) دائرہ عمل پھیلا چکے ہیں،مگرآرٹیکل کا محور بنیادی حقوق (8تا28) کل 21آرٹیکل ہیں۔ آرٹیکل 17پاکستان کا ہر شہری سیاسی پارٹی بنا سکتا ہے۔ نواز شریف کو پارٹی صدر سے نااہل کرتے وقت آرٹیکل 62اور63کے ساتھ جوڑ کر غیر موثر کر دیا گیا۔ باوجود یہ کہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آرٹیکل 28 کو آرٹیکل 251سے جوڑا گیا، یقیناً جب علاقائی زبانوں پر بات ہوئی تو آرٹیکل251جو اردو کے نفاذ بارے251کے تابع کر دیا گیا۔ یعنی جہاں ضرورت تھی دوسرے آرٹیکل سے جوڑ دیا گیا۔ آئین بنانے والے آرٹیکل17کو 62/63سے جوڑنا کیونکر بھول گئے؟ یقیناً سپریم کورٹ نے سقم دور کر دیا مگر نیا فلڈ کھول دیا۔ پانامہ کیس میں بھی وطنی قوانین کا دائرہ کار تنگ رہنا تھا کہ ایسا قانون، نظیر موجود نہ تھے۔ دور کی کوڑی، ’’بلیک لا ڈکشنری‘‘ پھرولنا پڑی۔ آرٹیکل184(3) جو سپریم کورٹ کو آل مائٹی بناتا ہے کی وجہ وجود اور محور بنیادی حقوق کے آرٹیکل 8تا28 کے اند آرٹیکل10(A) بھی موجود، جو ہر شہری کو فیئر ٹرائل گارنٹی کرتا ہے۔ نواز شریف کو فیئر ٹرائل سے دن دیہاڑے محروم رکھا گیا۔
یہی وہ پوائنٹ جس کو نواز شریف نے کیش کرایا۔ قوم کو برانگیختہ رکھا، اپنے ساتھ جوڑ لیا۔اسمبلی الیکشن یا سینیٹ الیکشن نواز شریف طاقتور حلقوں اور حواریوں کے چھکے چھڑوا رکھے ہیں۔ آج ن لیگ، پہلے سے زیادہ یکسو، نواز شریف کی مٹھی میں بند، ایسی گرفت تو شاید گاندھی کی بھی کانگریس پر نہ رہی ہو گی۔ نواز شریف بادشاہ گر کے طور پر مستحکم، اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ جو کرنا ہے کر لو، جیل چھوڑو کالا پانی بھیجو۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ایک تحریک بن چکا ہے۔ ہر بڑے واقعہ کو منسوب رکھنا،نام دینا ضروری، ’’گھوڑوں کی خریدو فروخت، قومی افراط و تفریط، مافیا تطہیر وغیرہ اداروں کے نام‘‘ کہ ہر قدم پیچھے آئین، ضمیر، قومی مفاد بدرجہ اتم موجود ہے۔

تازہ ترین