فرحی نعیم،کراچی
کہتے ہیں، اگر نیّت خالص اور نیک ہو، تو منزل آسان ہوجاتی ہے اور راستے کی تمام رکاوٹیں بھی دُور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس حدیث سے بھی کون واقف نہیں،جس کے مطابق اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے۔ وہ اعمال، جن کے پیچھے اخلاص اور اللہ کی رضا پوشیدہ ہو، وہ انسانوں کے لیے قابلِ قبول ہوں، نہ ہوں، لیکن اللہ کے حضور ضرور مقبول ہیں۔ بعض اوقات بظاہر عام اور معمولی فعل محض نیّت بدلنے سے اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے، تو کبھی بہت خاص عمل بھی نیّت کے کھوٹ سے اپنی حیثیت کھو دیتا ہے۔
بات صرف اور صرف نیّت کی ہے، جو آپ کے دِل و دماغ میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے۔ اور پھر آپ کا عمل بھی اسی کا تابع ہوتا ہے۔ نیّت کے حوالے سے ایک واقعہ بےحد مشہور ہے کہ ایک بار آپﷺاپنے ایک صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور روشن دان دیکھ کر دریافت فرمایا، ’’تم نے یہ کس مقصد کے لیے بنوایا ہے؟‘‘تو صحابی نے عرض کیا، ’’یارسول اللہ ﷺ! ہوا کی غرض سے۔‘‘
حضورِ پاک ﷺنے فرمایا، ’’اگر اس کے ساتھ تمہاری نیّت یہ بھی ہوتی کہ اس کے ذریعے اذان کی آواز بھی سُنائی دے گی، تو یہ روشن دان بنوانا بھی ثواب کا باعث بن جاتا۔‘‘ اس سے نیّت کی اہمیت و حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خواتین کے لیے ان کے گھرکے کام کاج کو بھی عبادت کا درجہ دیا ہے۔اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے، ’’عورت کا گھر گرہستی کرنا جہاد کے رتبے کو پہنچنا ہے۔‘‘تو اگر خواتین، گھر کی صفائی ستھرائی، برتن، کپڑوں کی دھلائی اور کھانا وغیرہ اس نیّت سے پکائیں کہ یہ اعمال ہمارے لیے باعثِ اجر ہوں گے، تو یقیناً وہ اس کا اچھا اجر ہی پائیں گی۔
اسی طرح اگر کسی کی عیادت یہ سوچ کر کی جائے کہ اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمّدﷺ نے اسے پسندیدہ عمل قرار دیا ہے، تو یقیناً یہ عمل بھی مغفرت کا ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن اگر نیّت میں محض دکھاوا ہو، تو پھر دکھاوے کا اجر، ثواب تو کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ ایک جگہ پڑھا تھا ، آپ دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔
ان دو رکعات کی ادائیگی میں چاہے وہ فرض، سنّت یا نفل ہوں، بظاہر کوئی فرق نہیں ہے اور دیکھنے والے کو بھی یہ علم نہیں ہوتاکہ آپ نے فرض، سنّت اور نفل میں سے کیا ادا کیا ہے، لیکن جب آپ ان دو رکعات کے آغاز میں اپنے رب کے حضور نیّت کرتے ہیں، تو ان کی حیثیت یک دَم تبدیل ہوجاتی ہے، لہٰذا کسی بھی کام کی ابتدا سے پہلے اپنی نیّت خالص اللہ کی رضا کے لیےکر لیں، لوگوں سے اُس کا بدلہ نہ چاہیں، بس اپنے خالق سے سچّی اُمید جوڑ لیں، جو ہر اچھے عمل کا صلہ دیتا ہے،چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔
اپنی نیّت میں کھوٹ پیدا نہ ہونے دیں اور بہ حیثیت عورت، اگر آپ ماں ہیں، تو اپنے بچّوں میں، بڑی بہن ہیں،تو چھوٹے بہن بھائیوں میں نیک نیّتی کی عادت راسخ کریں،تا کہ چراغ سے چراغ جلتا رہے۔