• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنڈے اسپیشل: ’’جھوٹی خبر‘‘ بھی کیا بُری خبر ہے۔۔۔!!!

راؤ محمّد شاہد اقبال،نواب شاہ

2016 ء کی امریکی صدارتی مہم میں فیک نیوز یعنی’’جھوٹی خبر‘‘ کا لفظ اس تواتر سے استعمال کیا گیا کہ یہ ایک مقبول اصطلاح بن گئی۔ ’’کولینس ڈکشنری ڈاٹ کام‘‘ نے اسے’’ ورڈ آف دی ائیر‘‘ یعنی سال کا اہم ترین اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ قرار دے دیا۔ کولینس ڈکشنری ڈاٹ کام، دنیا بھر میں نئے اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ پر نظر رکھنے والا ایک معتبر ترین اور مصدّقہ ادارہ ہے۔ اس سے وابستہ محقّق،’’ لیکسیوگرافر‘‘ نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک سال سے زاید طویل عرصے پر محیط تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا کہ لفظ ’’جھوٹی خبر‘‘(Fake News) گزشتہ ایک سال کے دَوران 365 فی صد سے بھی زاید تناسب سے استعمال کیا گیا۔

جھوٹی خبر کی’’سچّی تعریف‘‘ کیا ہے؟ :جھوٹی خبریں گھڑنے والوں نے اس لفظ کی بہت سی جھوٹی تعریفیں یا اصطلاحیں بھی گھڑ لی ہیں، جس کی وجہ سے اچھے خاصے سمجھ دار شخص کو بھی جھوٹی خبر کی سچّی تعریف سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جھوٹی خبر ایک طرح کا منفی پروپیگنڈا ہے، جو سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتا ہے۔ 

جھوٹی خبروں کی اشاعت یا تشہیر کے پسِ پردہ بہت سے وہ لوگ بھی ہیں، جن کا مقصد سوشل میڈیا پر سنسنی خیزی پھیلا کر مال کمانا ہوتا ہے، لیکن کئی ایک سیاسی تنظیمیں اور سیاسی رہنما بھی جھوٹی خبروں کا منظّم نیٹ ورک چلاتے ہیں، جس کا مقصد اپنے سیاسی مفادات کا حصول اور مخالفین سے متعلق بے سروپا باتیں پھیلانا ہوتا ہے تاکہ اُن کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ پھر یہ بھی کہ کچھ منظّم گروہ ،مخالف مُلک کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے بھی اس طرح کی مَن گھڑت خبروں کا سہارا لیتے ہیں۔ 

بہر حال، ایک بات تو طے ہے کہ جھوٹی خبر، ایک ایسا خوف ناک ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے پھیلنے والی تباہی بھی ہمیشہ انتہائی خوف ناک ہی ہوتی ہے۔ چوں کہ آج کل جھوٹی خبر کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے، اس لیے اس کی درست تعریف جاننا ہر شخص کے لیے ازحد ضروری ہے۔’’ فرسٹ ڈرافٹ نیوز‘‘ کی، جو جھوٹی خبروں کی تلاش و تصدیق، روک تھام اور آگہی فراہم کرنے والا ایک انتہائی متحرّک اور اہم ترین تحقیقی ادارہ ہے، ایڈیٹر اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، کلیر وا رڈل (Claire Wardle) کے مطابق’’ جھوٹی خبریں سات طرح کی ہو سکتی ہیں۔

(1)اسٹائر یا پیروڈی (Satire/Parody) مزاح پر مبنی ہوتی ہے، جس کا مقصد نقصان پہنچانا نہیں ہوتا۔ انٹرنیٹ پر اکثر نیوز فراہم کرنے والی ویب سائٹس، اس طرح کی خبروں کو عوام کی تفریح کے لیے پیش کرتی رہتی ہیں اور قارئین کے لیے لکھ بھی دیتی ہیں کہ’’ یہ خبر محض تفریح کے لیے ہے۔‘‘ 

(2) خبر کی سُرخی اور تصویروں کی اصل مواد سے غیر مطابقت، جھوٹی خبر کی دوسری قسم ہے۔ اس میں خبر کچھ اورتصویر کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی ہوتی ہے۔ 

(3)گم راہ کُن خبریں بھی جھوٹی خبر کے زمرے میں آتی ہیں۔ 

(4)کسی خبر کا حالات اور پسِ منظر کے یک سر برعکس ہونا بھی جھوٹی خبر ہی ہے۔ 

(5)عارضی مواد پر مبنی خبریں بھی ’’جھوٹی خبر ‘‘ہیں۔ اس میں خبر کے حقیقی ذرایع کے ساتھ جان بوجھ کر کسی خاص مقصد کے تحت بدعنوانی کی جاتی ہے اور معاملے کی صداقت کو تہہ در تہہ چُھپا لیا جاتا ہے۔ 

(6) خبر کی اس قسم میں ایڈٹ شدہ تصاویر یا ویڈیو کی بنیاد پر خبروں سے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے اور مواد کے کچھ حصّے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ 

(7) پوری طرح سے بے بنیاد اور فرضی خبریں، جس میں کچھ بھی قابلِ یقین ہوتا ہے، اور نہ ہی قابلِ تصدیق۔

فیس بُک یا فیک بُک: سوشل میڈیا کی بات کی جائے، تو فیس بُک سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا وہ سُرخیل اور اہم ترین رُکن ہے کہ جس کا جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے دنیا بھر میں فیس بُک (Face Book) کو اب فیک بُک (Fake Book) کے نام سے بھی پکارا جانے لگا ہے۔ 

جھوٹی خبروں کی اشاعت کے حوالے سے دنیا کے کم و بیش ہر مُلک میں فیس بُک کو سخت تنقید کا سامنا ہے، بلکہ کئی ایک مُمالک میں تو فیس بُک انتظامیہ عدالتوں میں ہتکِ عزّت کے مقدمات کا بھی سامنا کر رہی ہے، جب کہ بہت سے ممالک پہلے ہی فیس بُک کو جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ہرطرف سے تنقید کی زد پر آنے کے بعد، فیس بُک انتظامیہ نے کچھ ہفتے قبل اعلان کیا ہے کہ وہ جھوٹی خبر کی روک تھام کے لیے بہت جلد ایک مؤثر اور نتیجہ خیز مہم کا آغاز کرے گی۔

 فیس بُک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’’یہ اہم بات ہے کہ جو رپورٹس اور خبریں فیس بُک پر شایع کی جائیں، اُن کی تصدیق بھی کی جا سکے۔ ہم سے بار بار کیے جانے والے اس مطالبے کو ہم بھی بے جا یا فضول نہیں سمجھتے۔ 

اسی لیے ہماری کمپنی مستقبل میں جھوٹی خبر کے بارے میں رپورٹ کرنے کے طریقۂ کار کو آسان بنانے کے لیے عملی اقدامات کا سنجیدہ ارادہ رکھتی ہے، جب کہ نفرت انگیز مواد اور ایسی پوسٹس کی، جو کسی طبقے یا گروہ کے لیے دل آزاری یا صدمے کا باعث ہوں، روک تھام کو بھی اپنی اہم ترین پالیسی بنا لیا گیا ہے، اس لیے ہم جَلد ہی اس قابل ہوجائیں گے کہ کسی بھی جھوٹی خبر کا داخلہ، فیس بُک میں مکمل طور پر ناممکن بنا دیا جائے‘‘۔

جھوٹی خبر سے بچنے کے نسخے: کیا جھوٹی خبر سے مکمل طور پر بچا جاسکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب سیاسی ٹاک شوز، حالاتِ حاضرہ، نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا سے دِل چسپی رکھنے والے کم و بیش ہر پاکستانی کو فوری طور پر درکار ہے، تو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں کیوں کہ’’ انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز‘‘ کے نام سے 1927ء سے متحرّک ایک ادارے نے، جس کے قیام کا بنیادی مقصد ہی اطلاعات کے متلاشی قارئین و ناظرین کے لیے وہ آئیڈیل ماحول فراہم کرنا ہے، جس میں کسی ابہام یا جھوٹ کا شکار ہوئے بغیر باآسانی معلومات تک پہنچنا ممکن ہوسکے، سماجی علوم کے ماہرین کی مدد سے آٹھ ایسے رہنما اصول وضع کیے ہیں، جن کی مدد سے آپ کسی بھی خبر کے ممکنہ جھوٹ یا ابہام سے بہت حد تک اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔

 آئی ایف ایل اے کی جانب سے جھوٹی خبر سے بچنے کا پہلا اُصول یہ بتایا گیا ہے کہ’’ جب بھی کوئی خبر آپ تک پہنچے، تو اس خبر کے مقصد کو سمجھنے کے لیے اس کے ذرایع کے بارے میں تمام ممکنہ معلومات حاصل کریں، مثلاً خبر کا تعلق کسی بڑے خبر رساں ادارے سے ہے یا نہیں، کیوں کہ خبر پیش کرنے والا ذریعہ، جس قدر غیرمعروف ہوگا، خبر کے جھوٹا ہونے کا بھی اتنا ہی امکان ہے۔‘‘ دوسرا زرّیں اُصول یہ یاد رکھیں کہ’’ جو خبر آپ کو دی جا رہی ہے، اس سے ہٹ کر بھی خبر کے امکانی پہلوؤں پر ضرور سوچیں تاکہ خبر کے تمام پہلو اور مکمل کہانی کی بُنت آپ کو سمجھ آسکے۔‘‘ 

تیسرا اُصول یہ ہے کہ’’ یہ جاننے کی لازمی کوشش کریں کہ خبر لکھنے یا سُنانے والا کون ہے اور ماضی میں اس کی خبروں کے سچ یا جھوٹ پر مبنی ہونے کا تناسب کیا رہا ہے۔‘‘ چوتھا اور سب سے اہم ترین اُصول یہ ہے کہ’’ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ خبر کے علاوہ، خبر کے متعلق دیے جانے والے دلائل اور ثبوتوں کو خبر دینے والے دیگر اور کون سے ذرایع مستند قرار دے رہے ہیں اور کون سے اُسے غیر مستند کہہ رہے ہیں۔ 

مثلاً ایک خبر کسی ایک مخصوص چینل، ویب سائٹ پر تو نظر آرہی ہے، مگر دیگر چینلز یا نیوز سائٹس اس خبر کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خبر یا تو بہت کم زور ہے یا پھر مکمل طور پر جھوٹی ہے۔‘‘ خبر کو جانچنے کا پانچواں اصول یہ ہے کہ’’ خبر کے شایع ہونے کی اصل تاریخ یا وقت کیا درج ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ خبر تازہ ترین ہے یا اتنی زاید المعیاد ہوچکی ہے کہ اس کی افادیت ہی کو اب زیرِبحث لانا کسی بے وقوفی سے کم نہ ہوگا۔‘‘ چَھٹا سنہری اُصول بھی ضرور ازبر رکھیں کہ’’ اگر خبر میں کسی قسم کا مذاق اڑایا گیا ہے، تو اُسے سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ بے جا تعصّب پر مبنی تنقید کے پہلو سے کیا گیا ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ 

ساتواں خاص اُصول یہ ہے کہ’’ خبر پر یقین کرنے سے پہلے اپنی پسند اور ناپسند کا ضرور ناقدانہ جائزہ لیں، تاکہ یہ پہلو بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہوسکے کہ کہیں آپ ایک صاف صاف نظر آنے والی جھوٹی خبر پر صرف اور صرف اس لیے تو یقین نہیں کر رہے کہ وہ آپ کو پسند ہے اور اس میں آپ کو اپنا یا اپنے نظریات سے وابستہ کسی سیاسی، لسانی یا گروہی جماعت کا فائدہ نظر آرہا ہے۔‘‘ 

آٹھواں اور سب سے آخری اُصول یہ ہے کہ’’ جس شعبے کے متعلق خبر ہو، اُس سے حاصل ہونے والی معلومات کی تصدیق یا تردید کے لیے صرف اسی شعبے کے ماہرین سے رائے لی جائے، تاکہ تمام ممکنہ دیگر پہلو بھی کُھل کر سامنے آ سکیں۔ مثلاً آئی ٹی سے متعلق خبر کے بارے میں شوبز سے وابستہ کسی فرد سے رائے لینا، خبر اور آئی ٹی کے ماہر پر ظلم کے مترادف ہے۔‘‘ اگر قارئین اور ناظرین درج بالا اُصولوں کو حرزِ جاں بنا کر رکھیں، تو جھوٹی خبر کے وبال میں شریک ہونے سے بچنا کچھ ایسا ناممکن بھی نہیں۔

چند سرِ فہرست جھوٹی خبریں: کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں خواتین کے سماجی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے ایک خبر بہت زیادہ عام رہی، جس کے مطابق’’ Sophia نامی ایک روبوٹ کا، جسے حال ہی میں سعودی عرب کی شہریت دی گئی تھی، ایک چوراہے پر سر قلم کر دیا گیا۔‘‘

 یہ خبر غالباً اس بات کی طرف اشارہ تھی کہ سعودی عرب میں خواتین کی تو بات ہی چھوڑیے، وہاں تو خواتین کی صُورت اور نام رکھنے والے روبوٹ کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔ اس خبر میں ایک شہری کا بیان بھی شامل تھا، جس کے مطابق’’ وہ’’ خاتون روبوٹ‘‘ کُھلے عام بغیر کسی محرم کے بے پردہ گھوم رہی تھی اور اپنی آنکھوں کی مدد سے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کر رہی تھی، اس لیے اس کا یہی انجام ہونا تھا۔‘‘ 

خبر پھیلنے پر سعودی حکّام سمیت دیگر متعلقہ افراد نے تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ سب سے پہلے جس ویب سائٹ پر یہ خبر شایع ہوئی، وہ امریکا کی ایک فیک نیوز ویب سائٹ ہے، جس کا مقصد ہی مزاحیہ مضامین شایع کرنا ہے۔’’ ڈفِل بلاگ‘‘ نامی اس سائٹ نے اپنے ڈس کلیمر میں پہلے ہی واضح کر رکھا ہے کہ’’ سائٹ پر شایع ہونے والا مواد حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا،‘‘ لیکن اُن ہزاروں افراد کو داد دیجیے، جنہوں نے خبر کے نیچے کچھ دیکھے بغیر ہی اُسے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس بھیج دیا۔ ایک اور قصّہ بھی پڑھتے جائیے۔

 معروف اداکارہ اور بی جے پی کی رہنما، کرن کھیر نے 16 دسمبر کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک تصویر اَپ لوڈ کی، جس میں کسی پہاڑی علاقے میں برف میں دھنسے دو مسلّح افراد کو دِکھایا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ دو افراد، در اصل بھارتی فوج کے سپاہی ہیں، جو منفی پچاس ڈگری کی جان لیوا ٹھنڈ میں بھی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ وطن پرستی اور نیشنل ازم سے سرشار لاکھوں بھارتیوں نے تصویر کو دھڑا دھڑ ایک دوسرے کو فارورڈ کرنا شروع کردیا۔

 جب ٹوئٹر کو اپنے کسی صارف کی جانب سے شکایت موصول ہوئی، تو اُنہوں نے اس خبر کی تصدیق کا بیڑا اُٹھایا۔ پتا چلا کہ یہ تصویر بھارتی سورماؤں کی نہیں، بلکہ روس کے فوجیوں کی ہے، جن کو چار سال پہلے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا تھا۔ اسی طرح جب کچھ عرصہ پہلے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ عالمی سطح پر توجّہ کا مرکز بنا، تو جھوٹی خبریں بنانے والوں نے اس دِل دہلا دینے والے واقعے سے بھی وقتی فائدہ اُٹھانے میں کسی قسم کی کوئی عار یا شرم محسوس نہ کی، بلکہ جھوٹ پر مبنی ایک تصویر کو اس قدر عام کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کا مقدمہ ہی کم زور پڑ گیا۔ 

اُس تصویر میں دس، بارہ سال کی ایک حاملہ بچّی کو دِکھایا گیا تھا، جو اقوامِ متحدہ کے کسی اسپتال میں داخل تھی اور جلد ہی بچّے کی ولادت متوقّع تھی۔ بہ ظاہر اس تصویر کو پھیلانے کا مقصد، دنیا کو روہنگیا بچّیوں پر ہونے والے جنسی تشدّد سے آگاہ کرنا تھا، مگر جب مختلف اداروں کی طرف سے تحقیق کی گئی، تو پتا چلا کہ اس 12 سالہ بچّی کا نام، سینڈی ہے اور وہ متعدّد امراض میں مبتلا ہے، اُس کے جگر میں بھی خرابی ہے اور ان امراض کی وجہ سے اس کا شکم یعنی پیٹ بڑھ گیا ہے۔

 جب کہ وہ روہنگیا کی نہیں، برازیل کی رہنے والی ہے۔ دراصل، اُس کی یہ تصویر ایک ایسی ویڈیو سے لی گئی تھی، جس میں وہ علاج کے لیے مدد مانگ رہی تھی۔ جب تک اس جھوٹی خبر کی تحقیق ممکن ہو سکی، لاکھوں افراد شیئر کرنے کی متعدّی بیماری کے سبب، اُسے دنیا بھر میں پھیلا چکے تھے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے پاکستان میں بننے والی یا گھڑی جانے والی جھوٹی خبروں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ذہنی و نفسیاتی تباہی کے بارے میں تو بات ہی نہیں کی، تو مختصراً عرض ہے کہ پاکستان میں جھوٹی خبر سے متعلق ایک انتہائی اہم ترین مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے، جس پر ہم اشارے کی حد تک بھی اثر انداز نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں اس مقدمے کے حوالے سے قوی حُسنِ ظن ہے کہ اس کا فیصلہ، پاکستان میں جھوٹی خبر کا مستقبل مکمل طور پر تاریک کردے گا۔

تازہ ترین